تحریر: حامد میر
ایک دفعہ الطاف حسین نے نئی دہلی میں پاکستان کے خلاف تقریر کردی۔ عمران خان نے جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں الطاف حسین پر تنقید کی تو پیمرا نے میری جان عذاب میں ڈال دی۔ ایم کیو ایم نے سیتا وائٹ کے معاملے پر شور مچانا شروع کردیا اور الیکشن کمیشن میں عمران خان کے خلاف ریفرنس دائر کردیا۔ پھر جب 12مئی 2007ء کو کراچی میں قتل عام ہوا تو عمران خان نے کیپٹل ٹاک میں ایم کیو ایم کو قتل عام کا ذمہ دار قرار دیا۔ ذرا سوچئے! ایم کیو ایم ایک فوجی صدر کی اتحادی تھی لیکن عمران خان نے ایک فوجی صدر کی اتحادی حمایت پر تنقید کر کے ہمیں بھی مشکل میں ڈالا اپنے آپ کو بھی مشکل میں ڈالا۔ پھر مشرف نے ایمرجنسی لگا کر مجھ سمیت پانچ ٹی وی اینکرز کو اسکرین سے غائب کردیا۔ وکلاء اور صحافیوں نے مشرف کے خلاف تحریک شروع کی تو میں سڑکوں پر کیپٹل ٹاک کیا کرتا تھا اور عمران خان میرے روڈ شوز میں شریک ہو کر آزادی صحافت کے حق میں نعرے لگواتے تھے۔ نہ وہ دبائو میں آئے نہ ہم دبائو میں آئے۔ آج بہت سے مبصرین پاکستانی میڈیا پر دباؤ اور سنسر شپ کی شکایت کررہے ہیں۔ میں تو اس غیر اعلانیہ سنسر شپ پر کئی سال سے پیٹ رہا ہوں لیکن جو حریت پسند پہلے میرا مذاق اڑاتے تھے آج سب سے زیادہ وہی چیخ رہے ہیں۔ عمران خان کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ میڈیا پر سنسر شپ کے تاثر کو زائل کریں۔ میڈیا کو وہی آزادی دیں جس کی حمایت وہ مشرف دور میں کرتے تھے۔ جو لوگ آج عمران خان کو برا بھلا کہہ رہے ہیں انہیں بولنے دیا جائے، عمران خان اپنی اچھی کارکردگی سے ان کا منہ بند کرائیں۔ عمران خان ’’سچ‘‘ بولنے والوں اور مثبت تنقید کرنے والوں کی قدر کریں یہ توقع مت رکھیں کہ ان کے صحافی دوست ان پر تنقید نہیں کریں گے۔ ہم اچھے کاموں کی تعریف کریں گے لیکن غلطیوں پر تنقید ضرور ہو گی کیونکہ ہماری مائوں نے بھی ہمیں یہی سکھایا تھا کہ ہمیشہ سچ اور صرف سچ بولو ہمیں وہی پاکستان بنانا ہے جیسا پاکستان شوکت خانم دیکھنا چاہتی تھیں۔(بشکریہ جنگ)