بلاگ: سید عارف مصطفی
حضرت شعیب علیہ اسلام کی نافرمان قوم نے تو ناپ تول کے باٹوں میں گھپلوںکی سزا پائی تھی ، لیکن ہماری قوم کے کئی لوگوںنے اپنے بڑوں کے ناپ تول کے معیارمیں گھپلوں پہ کمر باندھی ہوئی ہے ۔۔ اور ایسے میں پھر ہمارے معاشرے میں شاعر و دانشور شعیب بن عزیز کیوں نہ پیچھے رہ جائیں اور شعیب شوٹر اور شعیب شیخ کیوں نہ نمایاں ہوجائیں ۔۔۔ لیکن مقام شکر ہے کہ ابھی ہماری عدالتیں موجود ہیں جہاں ایسے معیارات ابھی تک مسترد کیئے جاتے ہیں اور اس سبب جہاں مفرور شعیب شوٹر پیش ہونے سے کتراتے ہیں اور شعیب شیخ جیسے ڈان بالآخر اپنے کیئے کی سزا پاتے ہیں ۔۔ مقام اطمینان ہے کہ طویل عرصے سے جاری گھناؤنے جرم کی طویل داستان انجام کو پہنچی کہ جسے 4 برس قبل نیویارک ٹائمز کے نامور صحافی ڈیکلین والش نے بے نقاب کیا تھا اور بتایا تھا کہ پاکستان کی یہ آئی ٹی کمپنی کس طرح جعلی ڈگریوں کی فروخت کا دھندا کرکے اربوں روپے کماچکی اور ابتک دنیا بھر میں تین لاکھ سے زائد جعلی ڈگریاں بیچ چکی ہے اور اب بھی اسکا یہ کالا کام جاری ہے جس پہ یہاں وقتی طور پہ تو حکومت نے بڑی چوکسی دکھائی لیکن بعد میں بھاری رشوتوں نے سب کچھ پلٹ کے رکھ دیا ۔ لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پھر بھی چند صحافیوں اور صحافتی اداروں نے ہمت نہ ہاری اور جھوٹ اور غلاظت کے اس دھندے کا تعاقب مسلسل جاری رکھا اور حکومت اور اداروں کو اس مد میں اصلی کارکردگی دکھانے پہ مجبور کردیا اور نوبت یہ آئی کے ایکزیکٹ جعلی ڈگری کیس کے اصل حقائق پوری طرح آشکار ہوئے اور اس بدنام ادارے کے سربراہ شعیب شیخ کے جرائم پوری طرح بے نقاب ہوئے اور اسے اسلام آباد کی عدالت نے 4 جولائی کو 20 برس قید کی سزا سنادی گئی اور ساتھ ہی اسکے 23 شریک جرم بھی سزایاب ہوئے۔۔۔
لیکن یاد کیجیئے کہ اس سے قبل جب وہ گزشتہ برس اسلام آباد ہی کی اک عدالت سے ‘باعزت بری’ ہوکے دو انگلیوں سے وکٹری کا نشان بناتے اور اکڑ اکڑ کے چلتے ہوئے باہر آیا تھا تو یوں لگتا تھا کہ جیسے آج خدانخواستہ حق ہار گیا اورباطل جیت گیا اور ایک شخص نے اپنے کالے پیسے کے بل پہ سارے معاشرے کو یرغمال بنالیا ہے اور اب اسے پوچھنے والا کوئی نہیں۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ پھر یکایک قدرت کا نظام انصاف حرکت میں آیا اور شعیب شیخ سے 50 لاکھ روپے رشوت لے کے اسے رہاکرنے والے جج پرویز القادر میمن کی سیاہ کاری و ملی بھگت کا بھانڈا پھوٹ گیا اور نہ صرف وہ ڈیپارٹمنٹل انکوائری کمیٹی میں یہ جرم تسلیم کرنے پہ مجبور ہوا بلکہ اسکی برطرفی کے بعد یہ مقدمہ ازسرنو شروع کرنے کا قدم بھی اٹھالیا گیا اور عدالت کے تیور بھانپتے ہی وہی ایف آئی اے جو اس کیس میں سو طرح کے رخنے ڈالتی چلی آرہی تھی اوراپنے 4 پروسکیوٹر تک بدل ڈالے تھے بالآخر شعیب شیخ کی پشت پناہی اور لیت و لعل سے باز آئی اور یوں دنیا بھر میں وطن عزیز کی رسوائی کا سبب بننے والی یہ شرمناک کہانی ختم ہوئی ۔۔۔ لیکن یہاں اس حوالے سے ابھی چند سوالات کے جوابات دیئے جانے ابھی باقی ہیں۔۔
ان سوالات میں سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ ایکزیکٹ کے کالے دھن سے کھڑے کیئے گئے ان دو چینلوں یعنی بول اور پاک کا کیا بنے گا کہ جنہیں شعیب شیخ نے میڈیا کنگ بننے اور ملکی سیاست اورسماج کو اپنے چنگل میں جکڑ لینے کے لیئے قائم کیا تھا اور جو رات دن شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے اور معاشرے میں عدم برداشت اور رواداری کی سوچ کو پامال کرنے کو اپنا مشن بنائے ہوئے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور میڈیا کے نمائندہ ادار باہمی تعاون سے ان اداروں میں بیوقوفی یا لالچ سے پھنس جانے والوں کو کسی فارمولے کے تحت مختلف چینلوں اور سرکاری نشریاتی و صحافتی و اطلاعاتی اداروں میں ایڈجسٹ کرنے کی راہ نکالے ۔ اسکے علاوہ ایک اہم سوال عوامی و سماجی و دینی اور سیاسی رہنماؤں سے ہے کہ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ چینل ایکزیکٹ کے کالے سرمائے سے بنے ہیں اور انکا تمامتر انحصار شعیب شیخ کی کالی آمدن پہ ہے اور اسکے بانی ادارے کے نائب صدر عمیر حامد کو امریکا میں اسی جعلی ڈگریوں کے کیس میںجیل میں ٹھونس دیا گیا اور کروڑوں روپے کا کڑا جرمانہ بھی بھرنا پڑا ہے ، وہ تب بھی کیوں وہاں انکے پروگراموں میں براجمان ہوکے ان چینلوں کو سند اعتبار و افتخار بخشتے رہے اوراسی طرح اسکے ایک اہم منصب دار و اینکرعامر لیاقت سے بھی یہ پوچھا جانا چاہیئے کہ وہ تو جب نو ماہ قبل نومبر 2017 میں اس چینل سے ترک تعلق کرآئے تھے تو انہوں نےاپنے ٹؤئیٹس اور یو ٹیوب پہ جاری کردہ وڈیو کلپس میں اسکے مالک شعیب شیخ کو جوبلی کا کرمنل قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ چینل ایکزیکٹ کی جعلی ڈگریوں کے سرمائے پہ قائم ہوا ہے اور مجھے سمجھ میں آگئی ہے کہ وہاں چیک کے بجائے کیش میں معاوضے کیوں دیئے جاتے ہیں اور یہ بھی کہا تھا کہ میرے پاس بول سے متعلق اتنی روح فرسا کہانیاں ہیں کہ بتادوں تو لہو جم کے رہ جائے ۔۔۔
اور یہی نہیں بلکہ عامر لیاقت نے اسکے علاوہ یہ بھی اعلان کیا تھا کہ وہ شعیب شیخ کے کالے کرتوتوں کی آڈیو ریکارڈنگ بھی کرتے رہے ہیں جنہیں وہ قسط وار جاری کرتے رہیں گے اور اس ضمن میں یو ٹیوب پہ ایک قسط جاری بھی کردی تھی تو پھر ان سب زہریلے حقائق کے انکشافات کے بعد انہوں نے اپنا تھوکا ہوا آخر کیسے چاٹ لیا اور چند ہفتوںبعد دم دباکے وہیں پھر کیسے جاپہنچے اور یہ جانتے ہوئے بھی اور خود بتانے کے بعد بھی کہ یہ سب حرام کمائی کا ظہورہ ہے پھر سے اس خرابے کا حصہ بننا کیسے گوارا کرلیا اور یہ حرام اب آخر کیونکر حلال ہوگیا ۔ لیکن وہ یہ سب مکر و فریب کرتے ہوئے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ عوم بہر طور بیوقوف نہیں جو انکی چرب زبانی کے بل پہ انکی ہر قلابازی کو یوں آسانی سے ہضم کرپئیں ۔۔۔ بہرحال اس خرابے کے باوجود عوامی اینکر صاحب کے حق میں یہی بات جاتی ہے کہ وہ جو کہ اپنی یوٹرنز کے لیئے پہلے ہی بہت مشہور ہیں۔۔۔۔ اس یوٹرن کے بعد تو وہ شاید عالمی رینکنگ کے حامل ہونے کے مستحق ہوچکے ہیں۔۔(سید عارف مصطفیٰ)۔۔
(بلاگر کی تحریر اور ان کے خیالات سے ہماری ویب سائیٹ کا متفق ہونا ضروری نہیں، اگر اس تحریر سے کسی کو اختلاف ہے تو وہ اپنا موقف ہمیں بھیج سکتا ہے، ہم اسے بھی ضرور شائع کریں گے۔۔ علی عمران جونیئر)۔۔