Journalism and Activism By Farhan Khan

صحافت اور ایکٹوازم۔۔

تحریر: فرحان خان۔۔

پاکستانی صحافت کے لیے یہ کوئی خوش کن بات نہیں کہ سیاسی پارٹیوں کے لوگ یا سرکاری اداروں کے افسران اپنی محفلوں میں یہ کہنے لگیں کہ ”فلاں صحافی/اینکر ہمارا بندہ ہے”

یہ بھی اچھا نہیں کہ صحافی کی شناخت رکھنے والے کسی بھی شخص کے دفاع کے لیے کسی سیاسی پارٹی یا ادارے کے سوشل میڈیا سیل متحرک ہو جایا کریں ۔ ہاں مذمت کے لیے ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ ایک جنوئین خبر کی ایک سے زیادہ نوکیں ہو سکتی ہیں ،نوک جسے چُبھے گی وہ ردعمل تو دے گا۔ ایسا ردعمل گروہی بھی ہو سکتا ہے۔

حالیہ برسوں میں اپنے تئیں ”اسٹینڈ لینے” والوں نے اپنے شعبے سے یہ زیادتی کی ہے کہ وہ صحافت اور ایکٹوزم کے درمیان فرق کرنے والی حد کو نظر انداز کر گئے۔ اور یہ حد کوئی ایسی باریک بھی نہ تھی کہ سُجھائی نہ دیتی ۔ دوسری جانب کا تو ذکر چھوڑیے لیکن اِن ”اسٹینڈ لینے والوں” میں اُجلے دماغ کم نہ تھے ۔ ردعمل کی نفسیات نے انہیں بری طرح ملوث کیا۔ نتیجہ ایک بدترین تقسیم کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

اب تو یہ غلط فہمی بھی دُور ہونی مشکل ہو رہی ہے کہ ”ہر اینکر صحافی ہوتا ہے” ،اور ” ٹی وی پر شام کے سیاسی مباحثوں میں باتیں لڑانے ، جملے کسنے ،کف اُڑانے ، پیش گوئیاں کرنے اور  نسخے بتانے پر مامور لوگ بھی صحافی ہیں”

صحافی صرف صحافی ہوتا ہے ، وہ کسی کا بندہ ، کرائے کا ‘جگت باز’ یا نجومی نہیں ہوتا۔ وہ نئی کہانی ضرور لاتا ہے ، یہی اس کا کام ہے لیکن وہ اس اسٹوری کی پیش کش میں ہمیشہ پیشہ ورانہ اسلوب ملحوظ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ (فرحان خان)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں