تحریر: خرم شہزاد
یوں تو پوری دنیا میں ٹاک شوز سیاسی مناظرے کے طور پر اپنے دیکھنے والوں کو موجودہ سیاسی حالات پر پارٹیوں کا موقف واضح کرنے کے لیے پیش کئے جاتے ہیں ۔ ان ٹاک شوز میں گرما گرمی کا ہو جانا بھی کوئی نئی بات نہیں بلکہ یورپ ہو یا امریکہ جو اپنے آپ کو بہت مہذب دنیا سمجھتے ہیں ، وہاں بھی ٹاک شوز میں ہونے والی گرما گرمی ہاتھا پائی تک بھی پہنچ جاتی ہے جس سے کبھی کبھار ایسا شو ناظرین کو دیکھنے کو مل جاتا ہے جہاں بات منہ کے بجائے ہاتھوں سے کی جاتی ہے۔ٹوٹا ہوا فرنیچر بھی یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ دیا گیا موقف نہ صرف مضبوط اور بہترین ہے بلکہ ناقابل تردید بھی ۔ عوام ان ٹاک شوز سے ملک کے سیاسی حالات اور ہوا کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتی ہے اور سیاست دانوں کی طرف سے دئیے گئے وضاحتی بیانات پر اپنے آئیندہ کے لائحہ عمل کو ترتیب دینے کی کوشش کرتی ہے۔
ملک پاکستان جہاں اپنے آپ میں بہت سی انفرادیت رکھتا ہے وہیں اس کی سیاست ، سیاست دان ، عوام اور میڈیا بھی اپنے آپ میں بہت خاص مقام رکھتے ہیں کہ یہاں ٹاک شوز کا انداز ہی مختلف ہے۔ ایک چینل جس سیاست دان کی کرپشن کے واقعات سے ناظرین کو آگاہ کر رہا ہوتا ہے ، وہیں دوسرے چینل پر وہ سیاست دان ناظرین کی سیاسی بصیرت میں اضافہ کررہا ہوتا ہے۔ ایک دن شیر کا دفاع کرنے والا دوسرے دن کاغذات لہرا لہرا کر ناظرین کو ثبوت دکھاتے ہوئے جیالے یا کھلاڑی میں ڈھل چکا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے تمام چینلز کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے وہ ٹاک شوز چلانے اور ان میں کسی نہ کسی طور دھواں دھار بحث کروانے پر مجبور ہوتے ہیں لیکن ناظرین کے سمجھنے کی بھی کچھ باتیں ہیں، جنہیں ناظرین کسی طور نہیں سمجھتے۔
سب سے پہلی بات کہ ٹی وی یا اخبار پر بیان دینے والا ہر شخص سیاست دان نہیں ہوتا۔ کوئی دکیل ، ڈاکٹر یا کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والا شخص اگر کسی طرح کا کوئی بیان دے دیتا ہے تو اس سے اس کی سیاسی زندگی کا آغازتو ہو سکتا ہے لیکن وہ سیاست دان نہیں ہو سکتا۔ بالکل جیسے کسی بیمار شخص کا تھرمامیٹر لگا کر بخار دیکھنے والا ڈاکٹر نہیں ہو سکتا ویسے ہی کسی پارٹی کے حق میں یا خلاف بیان دینے والا سیاست دان نہیں ہو سکتا۔ لیکن ٹاک شوز میں ایک بڑی تعداد ایسے ہی لوگوں کی ہوتی ہے جنہوں نے دو چار گھنٹے پہلے کسی بھی سیاسی پارٹی کے حق میں یا خلاف ایک دھواں دھار بیان دیا ہوتا ہے اور شام کو ٹاک شو میں بطور سیاست دان گرما گرمی کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے اور ناظرین بیوقوفوں کی طرح اس کی باتوں پر سر دھنتے نظر آتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اگر کوئی شخص خود سے یہ کہتا بھی ہے کہ وہ فلاں پارٹی سے اپنی وابستگی رکھتا ہے ، یا فلاں پارٹی کا کارکن ہے جس کی وجہ سے اسے بطور سیاسی کارکن کسی بھی ٹاک شو میں مدعو کیا جاتا ہے لیکن سوچنے اور پرکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا واقعی وہ اس سیاسی پارٹی سے وابستہ ہے بھی کہ نہیں۔پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں میں ممبر سازی ہوتی ہے اور جو شخص کسی بھی پارٹی کا رکن بننا چاہتا ہو وہ ایک فارم پر اپنی معلومات دینے اور حلف وفاداری پر سائن کرنے کے بعد مطلوبہ پارٹی کا رکن بنتا ہے۔ ٹاک شوز میں اپنی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرنے والے ستانوے فیصد سیاست دانوں نے اپنی پارٹی کا فارم سائن ہی نہیں کیا ہوتا۔ ایک سے دوسری پارٹی میں چھلانگیں لگانے والے بعض تو ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو ٹاک شوز میں ہی اپنی پارٹی بدلنے کا اعلان کر دیتے ہیں ، ایسے لوگوں کو بھی ناظرین نہ صرف سنتے ہیں بلکہ آپس کی بحث میں ایسے لوگوں کی باتوں کو بطور سند دہراتے ہیں۔ تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کوئی بھی سیاست دان اپنی پارٹی کا نہ صرف موقف بیان کرتا ہے بلکہ اپنے رہنماوں کے دیئے گئے بیانات کا دفاع کرتے ہوئے مستقبل کا لائحہ عمل بھی بتاتاہے۔ ایک ناظر سے اگر پوچھا جائے کہ جس موضوع پر آپ فلاں سیاست دان یا سیاسی کارکن کی تقریر سن رہے ہیں، ان کو اس موضوع پر پارٹی موقف کی بریفنگ کب دی گئی یا زیر بحث موضوع پر ہونے والے پارٹی اجلاس میں تو یہ صاحب یا صاحبہ موجود ہی نہیں تھے پھر کس برتے پر یہ پارٹی موقف بیان کر رہے ہیں، وضاحتیں دے رہے ہیں اور آئیندہ کے لائحہ عمل بیان کر رہے ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ پاکستان میں صرف اور صرف ایم کیو ایم ایک ایسی سیاسی جماعت تھی جس میں باقاعدہ ایک نظام موجود تھا کہ جس رہنما نے کسی بھی طرح کے ٹاک شو میں شرکت کرنی ہوتی تھی ، وہ پارٹی کو اس سے آگاہ کرتا تھا اور پارٹی اس کی بریفنگ کا اہتمام بھی کرتی تھی۔اسی وجہ سے ایم کیو ایم کے رہنما ٹاک شوز میں چھائے ہوتے تھے اور وہ اپنے ہر طرح کے موقف کا ایسا بہترین دفاع کرتے تھے کہ دوسرے اختلاف کے باوجود سوال کرنے سے قاصر نظر آتے تھے۔ آجکل تو ایم کیو ایم ہی ختم ہو گئی تو ایسے تمام کام تو اب خواب و خیال ہی ہو گئے لیکن کسی بھی دوسری پارٹی میں ایسے کسی اہتمام کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکا۔ پاکستان کی تینوں بڑی پارٹیوں میں لائحہ عمل اور حکمت عملی ترتیب دینے کے لیے جو اجلاس بلائے جاتے ہیں ان میں صرف چوٹی کے دس بارہ نام ہی شامل ہو سکتے ہیں باقی تو ایسے کسی میٹنگ روم کے دروازے کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے او ر ایسا پاکستان میں ہر شخص کو پتہ ہے۔ سوچنے کی بات تو پھر وہی ہے کہ پارٹی کی کور کمیٹی کا جو شخص حصہ نہیں، پارٹی کی کسی بریفنگ میں جو شامل نہیں اور پارٹی کی ٹاپ لیڈر شپ سے جسے ملے شائد سال سے زیادہ ہو چکا ہے، وہ شخص ٹاک شو میں بیٹھا پارٹی کی طرف سے جو بیان دے رہا ہے وہ کس قدر اہمیت رکھتا ہے اور اسے کس وجہ سے ملک کی سیاست کے نئے رخ کے تعین کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
آج کسی بھی پاکستانی سے سیاست پر بحث شروع کی جائے تو اس کا انداز ایسا ہوتا ہے جیسے پاکستان میں سیاست کو صرف وہی اچھے سے جانتا اور سمجھتا ہے باقی سب تو بچے ہیں اور پاوں پاوں چلنا سیکھ رہے ہیں، لیکن جس ٹاک شوز کو سنتے ہوئے آج ہر پاکستانی تھڑے کا سیاست دان بنا ہوا ہے، ان ٹاک شوزمیں جو سیاسی بصیرت بانٹی جا رہی ہوتی ہے اس کی کیا کریڈیبلٹی ہے، یہ کوئی نہیں جانتا۔ بالکل ویسے ہی جیسے سرکس دیکھنے والا کوئی شخص شیر کو گھاس کھاتے دیکھ لے تو اسے سچ سمجھ لیتا ہے۔ہمارے ہاں ٹاک شو میں کسی کو بیٹھے دیکھ کر پارٹی رہنما اور سیاست دان سمجھ لیا جاتا ہے تب اس سے ملنے والی سیاسی بصیرت بھی شیر کے گھاس کھانے جیسے سچ جیسی اہمیت رکھتی ہے۔ ایک ناظر نہ صرف ٹاک شوز کا ایسا سرکس دیکھتا ہے بلکہ سوال بھی نہیں کرتا ، تو بتائیے آپ سے بات کس طرح کی جا سکتی ہے اور کیونکر آپ کو جاہل نہ سمجھا جائے کہ آپ کو بیوقوف بنائے جانے کا احساس ہی نہیں ہے اور یہی جہالت کی انتہا بھی ہوتی ہے۔(خرم شہزاد)۔۔