تحریر: ذیشان یاسین تاجی۔۔
کہنے کو ہر اِک شخص مُسلمان ہے، لیکن
دیکھو تو کہیں نام کو کِردار نہیں ہے
اَمیرالاسلام ہاشمی نے یہ شعر تو علامہ اقبال کو وطن کا حال سُناتے ہوئے ’’اقبال تیرے دیس کا حال کیا سُنائوں‘‘ میں کہا تھا۔ شاید اُنہیں بھی اِس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ اِس شعر کی حقیقت آئندہ سالوں میں صادق ہوجائے گی۔ ہر طرف مسلمان ہوں گے مگر اُن میں کوئی انسان نہیں ہوگا۔
قائداعظمؒ نے 13جنوری 1948ءکو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اِسلام کے سنہری اُصولوں کو آزما سکیں۔‘‘
مگر وطن کا ہر شہری شرمندہ ہے، کہ اقبال کا خواب پورا ہوا نہ ہی قائداعظم کا۔ لیکن المیہ تو یہ ہے کہ اس شرمندگی سے نجات حاصل کوئی بھی نہیں کرنا چاہتا۔
بسا اوقات حرمت بھی قلم کی داؤ پر رَکھ دی
لٹیروں کو ’’محبانِ وطن‘‘ لکھنا پڑا مجھ کو
کے مصداق اس خطہ زمین جس پر اسلام کے اُصولوں کو آزمانا تھا، وہاں شیطان کے چیلوں کا راج ہوگیا۔ ہر طرف اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ جس نبی کے ماننے کے یہاں سب دعوے دار ہیں، عاشق ہیں، وہ ـ(ﷺ) تو کہتے تھے کہ اگر فاطمہؑ بنت محمد(ﷺ) بھی اَگر چوری کرتی تو اُس کے بھی ہاتھ کاٹ دیئے جاتے۔ اور یہاں اقرباء پروری کا یہ عالم ہے کہ غریب کے لئے الگ قانون اور امیر کے لئے الگ قانون ہے۔ غریب کو 100 روپے کی چوری پر جیل میں تشدد کیا جاتا ہے اور سیاستدان اور افسر شاہی اربوں روپوں کی چوری کرکے بھی شرفاء بنے پھرتے ہیں۔
ہائے اقبال کے دیس کا کیا حال سُنایا جائے۔ جہاں رشوت لینا کلچر، جرائم پیشہ افراد کی عزت کرنا، خوشامدی کرنا فخر سمجھا جاتا ہے۔ جو جتنا بڑا مجرم ہوگا اُسے اتنا اہی بڑ عہدہ دیا جاتا ہے۔ بدعنوانی کا جِن اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اپنی کرشمہ سازی دکھارہا ہے۔ نماز پڑھ پڑھ کر سُود کھایا جارہا ہے۔ دین کی تبلیغ کرتے ہوئے سُنّت رسولﷺ چہرے پر سجائے صدقہ و زکوٰۃاور یتیموں بیوائوں کے مال سے ذاتی جائیدادیں بنائی جارہی ہے۔اور رہی سہی کسر کعبے کی بیٹیوں (مساجد) کا تقدس تباہ کردیا گیا۔ جہاں پر وحدہٗ لاشریک کی عبادت ہونی ہے، جہاں پر کتاب اللہ کی تعلیم دی جانی ہے، وہاں پر بدفعلیاں اور زِنا کیا جارہا ہے۔
کیا اِسلامی معاشرہ ایسا ہوتا ہے؟
کیا اِسلام ہمیں یہی سکھاتا ہے، کہ ہوس کے پُجاری بن کر معصوم کلیوں کو مَسل دیا جائے۔ کسی کی بہن بیٹی کی کوئی عزت نہیں رہ گئی۔ جس کا جو دِل کررہا ہے، جہاں دِل کررہا ہے اُسے نوچنے کی طاق میں ہے۔ کیا یہ جنگل ہے؟ جہاں پر کسی قانون کا کوئی خوف نہیں؟
جب منبر پر بیٹھ پر معاشرے کی اصلاح کرنے کے بجائے کُفر کے فتوے لگائے جائیں گے تو ایسا ہی ہوگا۔ دین فروشی ضمیر فروشی سے بڑھ کر گُناہ ہے۔ دین و مذہب انسان کو تہذیب یافتہ بناتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات پر عمل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ مگر علماء کا کردار خوشامدیت تک رہ گیا ہے۔ مسلک کی بنیاد پر فیصلے کیئے جارہے ہیں، غلط اور صحیح سے بالاتر صرف مسلکی بنیاد پر حمایت و مخالفت کی جارہی ہیں۔ چور کی داڑھی میں تنکا کے مصداق ہر کوئی کسی نہ کسی سطح پر مجرم بنا ہوا ہے۔ پھر بھی جنّت کا ٹھیکیدار بنا پھرتا ہے۔
کسی بُزرگ سے سوال پوچھا گیا کہ کیا ہر مسلمان جنّت میں جائے گا۔ اُنہوں نے کہا ہاں ہر مسلمان۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ مسلمان ہی مَرے۔
لوگوں نے پوچھا: اس کا کیا مطلب کہ مسلمان ہی مَرے؟
اُنہوں نے کہا کہ یہ اللہ کی حکمت و دانائی اور منصف اعلیٰ ہونے پر منحصر ہے۔ اس میں انسان کا کوئی عمل دَخل نہیں ہے۔ کوئی شخص اپنی پوری زندگی گُناہوں میں مبتلا رہے، مگر اللہ کو اُس کی کوئی خوبی پسند آجائے ، اور مرنے سے پہلے توبہ کی توفیق مل جائے تو وہ گناہوں سے پاک ہوکر اپنے رب سے ملے گا تو جنّت میں جائے گا۔ اورکوئی شخص پوری زندگی عبادتِ الٰہی میں مشغول رہا اور کوئی بے ادبی، خامی ، مخلوق کی دل آزاری اور ظلم و زیادتی اللہ کو ناپسند ہوجائے تو اُس آدمی کا ٹھکانہ جہنّم بن جائے گا۔
ہمارے معاشرے میں یہ بات سرائیت کرچکی ہے کہ مسلمان جنّت کا حق دار رہے گا۔ چاہے وہ کوئی بھی عمل کرتا رہے۔ شاید اِسی مفروضے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمارے یہاں زِنا، بدفعلی، بے حیائی، لوٹ مار، رشوت خوری، سُود، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، لاقانونیت، اقربا پروری، ظلم و زیادتی، یتیموں مسکینوں کے مال پر قبضہ کرنا، بہن بیٹیوں کو وراثت میں حصہ نہ دینا، ماں باپ کی نافرمانی اور اُن پر ظلم غرضیکہ ہر وہ کام جو شریعت ِاسلامی میں قطعی حرام ہے وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بڑی ڈھٹائی سے عمل پذیر ہے جیسے ان قبیح اعمال کو کوئی گناہ سمجھتا ہی نہیں ہے۔
جب میرے دوست احباب اَس بات کا تذکرہ کرتے ہیں تو میں اُنہیں ہمیشہ ایک ہی بات کہتا ہوں کہ اگر آپ کسی سے زیادتی کرتے رہے، اور آپ کی موت واقع ہوگئی تو جب تک وہ شخص معاف نہیں کرے گاتو آپ پر عذاب ہوتا رہے گا۔ اور بالفرض کہ جس کے ساتھ آپ نے زیادتی کی وہ مر جائے تو، پھر معاف کون کرے گا؟ اللہ ربّ العزت حقوق اللہ معاف کردے گا مگر حقوق العباد کبھی معاف نہیں کرتا۔
ایک حکمران جب اپنی رعایا کی جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت نہ کرسکے، تو اُس کا وبال پوری قوم پر آتا ہے، کیونکہ وہی اُسے حکمران منتخب کرتی ہے۔ وطن عزیز کا المیہ ہے کہ اس کا نام اسلامی جمہوریہ تو رکھ دیا گیا مگر قانون اسلامی نہیں ہوسکا۔ اگر چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہوتی، زنا کی سزا سنگسار کرنا ہوتی، بدعنوانی، ناحق قتل کرنا، مال غصب کرنے پر سَر تن سے جُدا کردیا جاتا تو معاملات بہت ہی مختلف ہوتے۔
چرچل سے دوسری جنگ عظیم کے بعد پوچھا گیا: کیا ہم پھر سے ترقی کرسکیں گے؟
چرچل نے کہا: ہماری عدالتیں انصاف مہیا کررہی ہیں؟
اُس نے کہا: ہاں۔
تو چرچل نے کہا: پھر ہمیں کوئی ترقی سے روک نہیں سکتا۔
جہاں پر انصاف بآسانی فراہم ہوتا تو وہاں اَمن کا دور دورہ ہوتا ہے۔ جہاں امن ہو وہاں ترقی کے روشن امکانات ہوتے ہیں۔ وطن عزیز میں عدالتی نظام جنگل کے قانون سے بھی بدتر ہوچکا ہے۔ سالوں جیل میں رہنے کے بعد انصاف ملے تو کیا ملے۔ ہمارے یہاں تو جیل میں عُمر گُزار کر اور مرنے کے بعد ملزم کو بَری کیا جاتا ہے۔ ایسے انصاف کا کیا۔ جس کے لئے ایوب علیہ السلام جیسا صبر، نوح علیہ السلام جیسی عُمر اور قارون جتنا خزانہ درکار ہو۔
وطن عزیز کو ریاست ِ مدینہ بنانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے، مگر یہاں ریاست مدینہ نہیں بلکہ قیصر و کسریٰ کی مانند نظام چلایا جارہا ہے۔ اگر ریاست مدینہ کا قانون نافذ کیا جاتا تو آج کوئی کلی اِس طرح مسلی نہیں جارہی ہوتی۔ کسی بہن بیٹی کی عزت پامال نہیں ہوتی۔ کسی بیٹے کے ساتھ مسجد و مدرسے میں بدفعلی نہیں ہوتی۔ کسی مظلوم پر ظلم نہیں کیا جاتا۔ بدعنوانی، رشوت خوری، ذخیرہ اندوزی پر سزائے موت ہوتی تو آج مہنگائی کا طوفان نہیں ہوتا۔
مگر ہائے افسوس صد افسوس! اسلامی معاشرے میں اسلامی قدریں ختم ہوکر رہ گئی ہیں۔ یوم آزادی کے موقع پر جشن کے نام پر کیا کچھ ہوا، وہ ہماری اخلاقی گراوٹ کی اعلیٰ مثال ہے۔
تو پھر اسلامی معاشرے اور کُفر میں کیا تمیز باقی رہ گئی ہے۔ بلکہ کُفر کے معاشرے میں تو اخلاقی بُلندی کی اعلیٰ مثالیں قائم کی جارہی ہیں۔ انصاف بلاکسی تفریق کے آسان اور تیز مہیا کیا جارہا ہے۔ تو کون جنت کا حق دار ہوا اور کون جہنّم کا۔ سوچنے کی اَشد ضرورت ہے!
اللہ کی زمین پر اُس کے قانون کو نہ ماننے والوں اللہ پسند نہیں کرتا، اُس کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر عذاب نازل فرماتا ہے۔ قوم شعیبؑ اور قوم لوطؑ پر جس وجہ سے عذاب نازل ہوا ہمارے معاشرے میں وہ بہت تیزی سے اپنی جڑیں پکڑ چکا ہے۔ تو پھر عذاب کا انتظار کیجئے یا توبہ کرکے سیدھے راستے پر گامزن ہوجائیے!مہلت کو غنیمت سمجھیں ورنہ توموت تو ایک دن آنی ہی ہے۔۔(ذیشان یاسین تاجی)۔۔