تحریر: اسد مفتی۔۔
ہم نے گزشتہ 73سال میں عجب عجب دور دیکھے ہیں وہ دور بھی دیکھا ہے جب اقتدار بہرہ تھا اور کسی کی بات سنتا ہی نہ تھا۔ وہ دور بھی آیا جس میں اقتدار کان تو رکھتا تھا مگر ہوش و خرد سے بے بہرہ تھا۔ پھر وہ حکمران بھی آئے جنہوں نے انسانوں کو ذلیل کرنے کا نام انسانی عظمت رکھ دیا اور پھر وہ دور بھی آیا جس میں پاکستان کے اصل مسائل کا چرچا ہوا لیکن یہ سورج بھی زیادہ دیر تک چمک نہ سکا اور آج ہم ایک ایسے دور میں داخل ہوچکے ہیں جو سیاسی، سماجی اقتصادی، صحافتی اور جمہوری آزادیوں کے اعتبار سےزیادہ اچھا نہیں۔ آج کا کالم صحافت کے حوالے سے سپردِ قلم کررہا ہوں۔ حکومت کے ایک اعلان کے مطابق قومی پریس اپنا کردار ادا کرنے میں پوری طرح آزاد ہے۔ اگر ایسا ہے تو ہمارے اخبارات و جرائد عدم تحفظ اور عدم توازن کا شکار کیوں نظرآرہے ہیں؟ میڈیا کے بارے میں یہ شکایت عام طور پر پائی جاتی ہے کہ وہ افواہیں پھیلاتا اور بے پر کی اڑاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تحقیق کا فقدان ہوتاہے۔ میرا خیال ہے کہ شکوئوں کا سلسلہ دراز کرنے کی بجائے ان اسباب کا سراغ لگایا جائے جو ہمارے قومی پریس کو عدمِ تحفظ کا شکار کئے ہوئے ہیں۔ اگر حکومت کی سوچ واضح اور صحت مند ہو اور وہ اچھی روایات قائم کرنا چاہے تو وہ ایسا کرسکتی ہے لیکن ہر حکومت پیوند کاری سے کام چلانا چاہتی ہے جوکہ مسائل کا حل نہیں ہے۔ ابلاغ عامہ کی پالیسی تشکیل دیتے وقت یہ اصول مدنظر رکھا جاتا ہے کہ اخبارات و جرائد کو صحیح ذرائع تک رسائی حاصل ہونی چاہئے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں اخبار نویس ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں اور قومی مفاد کی ہر خبر باہر لے آتے ہیں ہمارے ہاں یہ بات کونفیڈینشیل ہے۔ حکومت کے بڑے فیصلوں کے مدراج کونفیڈینشیل ہیں۔ سرکاری فائلوں میں اخبارات کے تراشے کونفیڈینشیل ہیں۔ دفتر خارجہ کا ہر ہر لفظ کونفیڈینشیل ہے۔ جب ہر چیز پردے میں ہو تو پھر اخبارات کیا چھاپیں اور اہل تحقیق کس موضوع پر تحقیق اور تنقیدی کام کریں۔ اس طرز عمل کے نتیجے میں بڑے بڑے قومی فیصلے رازداری سے ہو جاتے ہیں اور قوم کو اس وقت ان کے اثرات کا علم ہوتا ہے جب کوئی بڑا حادثہ یا کوئی المیہ وجود میں آجاتا ہے۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے اور اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہوئے حکومت کو وہ تمام قوانین اور ضابطے تبدیل یا ختم کر دینے چاہئیں جو حقیقت تک پہنچنے کے لئے سدِ سکندری بنے ہوئے ہیں۔ آفیشل سیکریٹ ایکٹ برطانوی استعمار نے نو آبادیاتی نظام چلانے کے لئے1923ء میں بنایا تھا وہ آزادی کے نئے تقاضوں کے مطابق نظرثانی کا محتاج ہے۔
ابلاغ عامہ کی پالیسی کا دوسرا بنیادی نکتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اخبارات و جرائد پر ایگزیکٹو کا کم سے کم کنٹرول ہو۔ اخبارات و جرائد کے معاملات بالعموم تمام قوانین کے تحت عدالتوں میں طے ہونے چاہئیں۔ ابلاغ عامہ پالیسی کا تیسرا بنیادی اصول یہ ہو سکتا ہے کہ نیکی اور بھلائی کو فروغ ملے اور بدی کو پھیلنے سے روکنے کے لئے باشعور اہتمام کیا جائے۔ سچائی کی زیادہ سے زیادہ اشاعت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حق و صداقت کو چھپانا ایک ظلم عظیم ہے اس ظلم عظیم کی روش بالکل ترک ہو جانی چاہئے کہ اس روش نے حکومتوں اور معاشروں کو بےحد نقصان پہنچایا ہے۔ یہاں میں عام شہری اور ایک کالم نویس کی حیثیت سے قومی پریس کو اتنا مضبوط دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ عوام کے حقوق کی حفاظت میں بڑی سے بڑی طاقت سے بھی ٹکر لے سکے اور آئین کے تحت ملنے والے سیاسی اور جمہوری نظام کی حفاظت کرسکے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب حکومت میں تنقید سننے کا حوصلہ اور اصلاح کرنے کا جذبہ موجود ہو اور ایک صحافی کے قلم کی صداقت کے لئے احترام پایا جاتاہو کہ اخبار نویس کسی درجے کا بھی ہو وہ امانت دار ہوتا ہے دوستوں سے خبر اور خبر حاصل کرنے کے ذریعوں کی امانت۔ اور جن تک وہ پہنچانی ہے ان کے ضمیر اور مفاد کی امانت۔ وہ چکی کے دو پاٹوں کے بیچ پستا رہتا ہے اس طرح پسنے میں اُس کی سرخ روئی ہے۔ یہی اس کے وجود کا جواز ہے۔ یہی اس کی حیات ہے۔ امانت پہنچانے میں ہمارے پاس جو ذہن و شعورکی چھلنی ہے بس وہ سلامت رہنی چاہئے کہ اس میں سے سنگ ریزے نہ سرک جائیں۔ اخبارات کو اپنی زندہ و توانا سچائی، روشنی اور ترقی پذیر ملک کی نمائندگی کرنی ہے تو اسے یہ تاریخی اور پیشہ ورانہ کردار سر انجام دینا ہوگا کہ زندگی سے سرشار صحافت ہو امیں ہاتھ نہیں اچھالتی اسے دلِ دردمند کو سنبھالنے سے ہی مہلت نہیں ملتی اور اُس امانت کو سنبھالتے چلنے کی ذمہ داری اس کی رفتار پر بریک لگائے رکھتی ہے جس امانت کو قوم کا ضمیر اور اپنے پڑھنے والوں کی سلامتی کہتے ہیں کہ یہی سچائی ہے یہی روشنی ہے۔۔(بشکریہ جنگ)