تحریر: عمیرعلی انجم
ہمارے دوست اؤر سینئر فوٹوگرافر محمد فاضل ان دنوں کراچی کے مقامی اسپتال میں زیر علاج ہیں۔۔۔۔اوران سے محبت کرنے والوں کی اکثریت اس فکرمیں مبتلا ہے کہ یہ کون سا طوفان ان پرسے گزررہاہے،دوسری جانب مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب سیاسی شخصیات کے ہجوم میں رہنے والے ہمارے کچھ دوست جنھیں اپنے پیشے یعنی صحافت سے زیادہ ذاتی تشہیر کا شوق ہے اور وہ زندگی میں ان افراد کے ساتھ لازمی تصاویر جمع کرنے کواپناجنون سمجھتے ہیں جو قریب المرگ ہوں یاکسی بڑے عہدے پرفائزہو۔۔کیاافسوس کامقام ہے ابھی چند روز قبل ہی میں نے سینئر صحافی رومیل کینتھ کے ہم سے جدا ہونے پراس ہی طرح کے شعبدہ بازوں کو اشارتاً سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ خدارایہ کوئی سیاستدان, کھلاڑی یافنکارنہیں ہمارے دیرینہ ساتھی ہیں اور ہمارے آ پس میں رفاقتوں، محبتوں کے معاملات اس درجہ ہیں کہ زندگی کانصف سے زائد حصہ ساتھ گزارچکے ہیں،جناب خداکے لئے اپنے دوستوں کو بخش دیں قبل اس کے کہ کوئی آ پ کی تصویر لگاکرایک جملہ۔۔۔۔
آہ ۔۔۔فلاں ہم میں نہیں رہالکھے،مجھے یادہے رومیل زندگی اور موت کی کشمکش میں تھااورلوگ ایک تصویر لگاکرمداریوں کی طرح ہمدردی اور دادسمیٹ رہے تھے۔۔ چلتے چلتے ایک درخواست کروں گافاضل سمیت اپنے تمام دوستوں کو اپنے ہی جیساانسان سمجھیں اوراس لمحے کی تلاش نا کریں کہ وہ کسی اسپتال میں زیر علاج ہو بلکہ زندگی میں ان کی قدر کیجئے اور ان کے جیتے جی انھیں اپنا دوست سمجھیں۔۔۔(عمیر علی انجم)۔