تحریر: سید عارف مصطفیٰ
میں ابھی جمعتہ الوداع کی نمازسے لوٹا ہوں جو میں نے اپنے علاقے کی سب سے بڑی مسجد یعنی جامع مسجد گول مارکیٹ ناظم آباد نمبر 3 میں ادا کی ہے اور جہاں کی نماز جمعہ کی خاص بات وہاں نماز کے بعد امام مسجد کی جانب سے مانگی جانے والی دلگداز ، طویل و پرسوز دعائیں ہیں ۔۔ آج چونکہ غیرمعمولی اہمیت کی حامل نماز جمعہ یعنی جمعتہ الوداع پڑھائی گئی تھی اس لیئے میرا دھیان دعاؤں کی جانب خاص طور پہ تھا ۔۔۔ لیکن آج بھی گو کہ بیشمار دعائیں منگی گئیں مگر مسجد اقصیٰ کی بازیابی کا کوئی ذکر نہ تھا اور یوں لگا کہ جیسے 52 برس قبل چھینا گیا اسلام کا قبلہء اؤل اب اہل اسلام کا کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا ۔۔ اب تو میڈیا بھی اسےفراموش کرچکا کیونکہ عرصے سے اس روز کو یوم القدس کے منائے جانے کے عہد کے باوجود اس حوالے سے کوئی بڑی سرگرمی جو نہیں ہوتی اور نہ ہی اس میں عوام کی کوئی دلچسپی باقی معلوم ہوتی ہے اور میڈیا کو تو ساری ریٹنگ ہی عوامی دلچسپی سے ہی ملتی ہے ۔۔ اس لیئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اب ہم سب نے ذہنی طور پہ اس پہ صیہونیوں کا قبضہ بطور حق تسلیم کرلیا ہے ۔۔ ایک طویل عرصہ ہوچلا کہ اب تو معروف دینی جماعتوں کی جانب سے بھی کوئی صدائے احتجاج تو کیا اس کا تذکرہ تک سننے میں نہیں آتا ۔۔۔۔
ویسے یوں کہنے کو تو ہم اسلام کا قلعہ بنے پھرتے ہیں اور خود کو دنیا کے 57 اسلامی ممالک میں وہ واحد خاص ملک جتاتے ہیں کے جو اسلام کے نام پہ قائم کیا گیا تھا لیکن عالم اسلام کے اس اہم ترین مسئلے کی جانب سے پہلے تو کان لپیٹے رکھے اور اب بالکل ہی پیٹھ ہی موڑکے بیٹھے ہیں ،،، دیگردنیا دار سیاسی جماعتوں کو چھوڑیئے، دینی غیرت سے بزعم خود سرشار اور ہر معاملے میں بھاگ بھاکے بیانات دینے کو بیقرار سراج الحق اور مولانا فضل الرحمان نے اس موضوع پہ کسی حکمت عملی پہ غور کرنا تو دور اس حوالے سے کبھی لب کشائی بھی کی ہو ۔۔ اور جب ہمارے رہنماؤں اور علمائے کرام کی اکثریت کی بیحسی و منافقت کا یہ حال ہے تو ہم مغربی آقاؤں کے جوتے سر پہ رکھنے والے حکمرانوں سے کیا امید رکھیں ۔۔ بلاشبہ عالم اسلام کے سارے ہی حکمران سوائے ایک ترکی والے اردگان کے ، نہایت بیغیرت ہیں اور بیحس و بے شرم ہیں ۔۔ اور یہ جو اردگان ہے تو یہ اکیلا کرے بھی تو کیا کرے اس لیئے محض نمائشی غیرتمندی کے اشتہاروں ہی سے کام چلا رہا ہے ۔۔ سب سے بڑھ کر یہ جو خادم حرمین کہلانے والے موجودہ سعودی حکمران ہیں تو درحقیقت یہ عالم اسلام کے چہرے پہ لگا کلنگ کا ٹیکا ہیں اورآپ اس بادشاہ کو ابو جہل سمجھیئے اور ولی عہد شہزادے کو ابو لہب جانیئے کہ درحقیقت انکی اصل اوقات وائٹ ھاؤس کے دروازے پہ امریکیوں کا راتب چاٹتے اور دم ہلاتے کتوں سے زیادہ ہرگز نہیں ۔۔۔
درحقیقت مسلم ممالک کے حکمرانوں ، علماء اور رئنماؤں کواس سارے معاملے میں تشویش ہے تو صرف اتنی کے بیٹھے بٹھائے ٹرمپ نامراد نے 51 برس بعد اونگھتی ٹھیلتی امت مسلمہ کوانکا قبلہ اؤل کیوں یاد دلا دیا ۔۔۔ کیونکہ اگر وہ گزشتہ برس یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا اعلان نہ کرتا تواس غافل امت کو بھلا کیسے یاد آتا کہ کبھی ایک بیت المقدس بھی ہوتا تھا کہ جو ہم مسلمانوں کا پہلا حرم تھا اور جسکی طرف منہ کرکے آغاز کے 17 ماہ تک اہل اسلام نماز بھی پڑھتے رہے ہیں اور جہاں وہ مسجد اقصیٰ بھی ہے کہ جہاں سے سرور کائنات ﷺ معراج پہ تشریف لے گئے تھے ۔۔۔ لیکن اسے ۱۹۶۷ کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے اردن سے یوں آسانی سے چھین لیا تھا جیسے کہ کوئی بدمست غنڈہ موالی راہ چلتی کسی کمزور سی دوشیزہ سے اس کا پرس چھین کے لے جاتا ہے ۔۔ افسوس یہ تو تھا ہی کہ اسرائیل نے اپنے سے کئی گنا بڑی عرب افواج کو چھ ہی روز کی جنگ میں دھول چٹادی اوربیت المقدس سمیت مصر شام اور اردن کے کئی وسیع علاقوں پہ قبضہ کرلیا لیکن اس سے سے زیادہ بڑی ندامت کی بات یہ کہ ان علاقوں کو اسرائیل سے وافگزار کرانے کے لیئے سوائے باتوں کے اور کچھ بھی نہ کیا گیا اور اس حوالے سے پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد ہونے میں بھی دو دو سال لگ گئے جو کہ مراکش کے شہر رباط میں ہوئی ۔۔۔
القدس کی بازیابی کے حوالےسے اور دیگر اہم معاملات پہ غور کرنے کے لیئے ایک ذیلی ادارہ او آئی سی کا بھی تشکیل دیا گیا یعنی آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز ۔۔۔ لیکن وہ محض ادارہ برائے فروغ بیغیرتی و کنجریت ہی ثابت ہوا ہے اور بڑے سے بڑے بحرانی مسئلے پہ طلب کردہ اپنی میٹنگوں میں بھی صرف او آئی سی کہنے سے آگے کبھی نہیں بڑھا اور اسکے بعد سے تو اب تک کئی اسلامی ممالک کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بھی استوار ہوچکے ہیں حتیٰ کہ وہ نمائشی غیرتمند ترکی بھی اسرائیل سے سفارتی رشتے کا حامل ہے کہ جسکے ماضی کے بیغیرت حکمرانوں نے یہ ذلالت بہت پہلے ہی کردکھائی تھی اور اسرائیل سے تجارت و اقتصادی تعاون کے کئی میدانوں میں مستحکم تعلقات قائم کرلیئے تھے اور اب تک اردگان کے غیرت بریگیڈ کو بھی ان تعلقات کے خاتمے کی ہمت نہیں ہوپائی۔
جہاں تک بیت المقدس کو اسرائیل دارالحکومت تسلیم کرنے کا معاملہ ہے تو خود اسرائیل بھی بائیس برس پہلے یہ اعلان کرکے ابتک اسکی وعملی صورتگری نہ کرپایا تھا اور کسی امریکی صدر کو بھی اس جانب اسرائیلی مطالبے پہ التفات کی ہمت نہ ہوسکی تھی ۔۔۔ لیکن یہ جو ٹرمپ ہے اسنے بظاہر تو اپنے پاگل پن کی شہرت سے بھرپور فائدہ اٹھاکے یہ اقدام کیا ہے لیکن درحقیقت وہ اس نے اس وقت امت مسلمہ کی اس بدترین بحرانی کیفیت کو پوری طرح جانچ لینے اور اسکی قیادت کی بے غیرتی ، منافقت اور بے بصیرتی کا پوری طرح ادراک کرلینے ہی کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے ورنہ اگر یہ ذرا نقصان کی بات ہوتی تو اچھی رقم ملنے پہ اپنی ماں کو بھی بیچ دینےکے لیئے مشہور یہ امریکی کبھی گھاٹے کا سودا نہ کرتے ۔۔۔ اس اقدام کا حقیقی فیصلہ تو اسی دن ہوگیا تھا کہ جب ٹرمپ نے سعودی سرزمین پہ قدم رکھا تھا اور نہایت بوسیدہ و خستہ جاں سعودی بادشاہ سلمان نے شدید ضعف اور نقاہت کے باوجود انکے ساتھ مٹک مٹک کے والہانہ طور پہ رقص فرمایا تھا اور اظہار غلامی کے طور پہ دس کروڑ ڈٓالر کے تحائف انکی اہلیہ کی نذر کیئے تھے
ٹرمپ کے اس فیصلے کے بعد ہونا ہوانا کیاتھا ، بس چند دن تھوڑی سی دھول اڑی ، دکھاوے کی جذباتیت کا اظہار ہوا اور پھر سب کچھ ویسے ہی چلتا رہا اور چلتا رہے گا کیونکہ یہ القدس کا قضیہ تو اب واقعی نصف صدی کا قصہ ہے کوئی دو چار برس کی بات نہیں ۔۔۔ اب تو عالم اسلام میں طویل عرصے سے اسکا ذکر بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی جمعے کو منبر مساجد سے مانگی جانے والی دعاؤں میں کہیں اس کی بازیابی کا ذکر ہوتا ہے ۔۔۔ خود پاکستان میں جسے عالم اسلام کا قلعہ کہتے ہم نہیں تھکتے ، وہاں اسلام اور جہاد کے دائرے سمٹ سکڑ کے سرحدی علاقوں اور افغانستان تک ہی محدد کردیئے گئے ہیں ۔۔۔ دنیا بھر کی نسلوں اور جغرافیوں کے مسلمان تو جہاد کے لیئے یہاں بلائے جاتے ہیں اور اکثر خود ہی پکڑائے بھی جاتے ہیں لیکن کیا کبھی کسی نے سنا ہے کہ فلسطین اور غزہ میں حماس کے ساتھ ملکے اسرائیل کے خلاف یہاں کے کچھ لوگ کبھی لڑتے پائے گئے ہوں ۔۔۔ اور اسکی وجہ یہ ہے کہ یہاں دین کی ٹھیکیداری جن لوگوں کے سپرد ہے جیسے کہ ۔۔۔؟؟؟ ناموں کی ایک لمبی فہرست ہے جناب اور ان میں ہر ملک کے نامی اکابرین شامل ہیں ۔۔۔ تو یہ حضرات شاید بلکہ یقینناً القدس کے معاملے کو اتنا اہم سمجھتے ہی نہیں ۔۔۔(سید عارف مصطفیٰ)۔۔