cheekhne ki zaroorat hai | imran Junior

’’حوا خوری‘‘

علی عمران جونیئر

دوستو،کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں باحجاب لڑکی کو ’’ریپ‘‘ کرنے کی کوشش کرنے والے ملزم کا ابھی تک پتہ نہیں لگ سکا، نامعلوم موٹرسائیکل سوار نے لڑکی کو دیکھتے ہی اپنا انڈرویئر اتار ا اور لڑکی کو دبوچنے کی کوشش کی، منہ پر ماسک لگا کر اپنی شناخت چھپائی، موٹرسائیکل کی نمبر پلیٹ بھی نہیں تھی۔ایسے معاشرے کے ناسوروں کو کڑی سے کڑی سزا جب تک نہیں دی جائے گی، ایسے واقعات سامنے آتے رہیں گے۔ حکومت کو چاہیئے کہ قصور کی زینب والے واقعہ کے بعد اس حوالے سے قانون سازی کرتی، لیکن حکومت کو توقرضہ لینے اور ایک سیاسی جماعت کو دبانے سے فرصت نہیں۔ معاشرے میں فرسٹریشن بڑھتی جارہی ہے۔جنگل کا قانون نافذ ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس، کسی کو قانون کا خوف نہیں۔

پاکستان میں ریپ کیسز میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ چھ سالوں میں 22 ہزار سے زائد ایسے واقعات پولیس کو رپورٹ ہوئے ہیں رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر روز کم از کم 11 عصمت دری کے جرائم رپورٹ ہوتے ہیں۔ایک اور سروے کے مطابق 2022 میں ملک بھر میں 4253 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جن میں 2 ہزار 325 بچیاں جبکہ ایک ہزار 928 لڑکے شامل تھے۔بچوں پر جنسی تشدد کے خلاف کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ساحل کی رپورٹ کے مطابق 2022 میں بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں33 فیصد اضافہ ہوا۔ اوسطاً یومیہ 12 سے زائد بچے درندگی کا شکار ہوئے۔ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کے ساتھ جنسی تشدد کے زیادہ واقعات پیش آئے۔2022 کے دوران بچوں پر جنسی تشدد کے سب سے زیادہ 3035 واقعات پنجاب میں رپورٹ کیے گئے۔ سندھ میں622، بلوچستان میں 30، اسلام آباد میں 360، خیبر پختونخوا میں187، آزاد کشمیر میں15 جبکہ گلگت بلتستان میں 4 بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنے۔ ان میں سے 3399واقعات پولیس اسٹیشن میں رپورٹ ہوئے۔اعداد و شمار کے مطابق اس سال2325 لڑکیوں اور 1928لڑکوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔6 سے 15 سال تک کی عمرکے بچے سب سے زیادہ زیادتی کا شکار ہوئے جس میں زیادہ تعداد لڑکوں کی تھی۔ بیشتر واقعات 5سال تک کی عمر کے بچے اور بچیوں کے ساتھ پیش آئے۔بچوں کو مدارس کے علاوہ اسپتال،ہوٹل، کار، کلینک، کالج، فیکٹری، جیل، پولیس اسٹیشن، شادی ہال، قبرستان اور دیگر کئی جگہوں پر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔جنسی اور جسمانی تشدد کے ان واقعات میں سب سے زیادہ بچوں کے شناسا اور خاندان کے افراد ملوث پائے گئے۔

باباجی فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا لوگ گھر سے باہر ’’ہواخوری‘‘ کے لئے نکلتے تھے لیکن اب زمانہ بدل چکا ہے اب کچھ بدقماش ’’حواخوری‘‘ کے لئے گھر سے نکلتے ہیں اور جب تک اپنا ٹارگٹ حاصل نہیں کرلیتے ،چین سے نہیں بیٹھتے۔پاکستان میں ’’حوا خوری‘‘ کے واقعات میں تیزی سے اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ کیوں روزانہ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر ریپ اور زیادتی کے حوالے سے کوئی نہ کوئی انوکھا کیس سامنے آیا ہوتا ہے۔ کبھی موٹروے پر اکیلی خاتون سے زیادتی کا کیس عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے، کبھی بھائی اپنی بہن اور باپ اپنی سگی بیٹی سے زیادتی کرنے پر پکڑا جاتا ہے؟ معاشرہ کدھر جارہا ہے؟ کیا ہماری غیرت ختم ہوچکی ہے؟اصل مسئلہ وہی ہے کہ ’’حواخوری‘‘ کرنے والوں کو کسی کا ’’ڈر یا خوف‘‘ نہیں ہے۔ سگمنڈ فرائیڈ نے ڈر کے بارے کافی تفصیل سے لکھا ہے۔مختصر یہ سمجھ لیں کہ پاکستان میں قانون مضبوط نہیں ہے قانون مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے وہ ڈر ختم ہو گیا ہے۔ یہ تو سادہ سی بات ہے کہ جہاں پہ قانون کمزور ہو وہاں پہ جرائم کی شرح زیادہ ہو گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون کو مضبوط کیا جائے، مطلب جو قوانین موجود ہے اس پر بروقت عمل کرنا اور ملزم کو کیفر کردار تک پہنچانا یہی وہ طریقہ ہے جس سے معاشرے سے تمام برائیاں ختم ہو سکتی ہیں۔

آج کل کی نوجوان نسل کا بس ایک ہی شوق ہے کہ ہاتھ میں موبائل ہو اور موبائل میں انٹرنیٹ کا کنکشن ہو، ہمارا مشاہدہ کہتاہے کہ اس موبائل نے ہماری آنے والی نسل کو جسمانی طور پر کمزور اور ذہنی طور پر اپاہج بنا کر رکھ دیا۔اب آپ پوچھیں گے وہ کیسے؟؟ وہ ایسے کہ ہمارے زمانے میں موبائل فون نہیں تھا، ہم کھلے میدانوں، سڑکوں، پارکس میں آؤٹ ڈور گیم کھیلتے تھے، کرکٹ، فٹبال،ہاکی وغیرہ لیکن آج کی نسل کو ان کھیلوں سے کوئی دلچسپی نہیں،ہاں کرکٹ کے بارے میں کہہ سکتے ہیں وہ بھی دیکھنے کی حد تک۔دیہات میں نوجوان پھر بھی جسمانی کھیل کھیلتے ہیں ۔۔ آپ کو محبت اور اچھے تیز رفتار انٹرنیٹ کنکشن میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو آپ کسے منتخب کریں گے؟ آپ کا جواب جوبھی ہو مگر آپ کو یہ سن کر سخت حیرت ہو گی کہ امریکہ میں ماہرین نے ایک تحقیقاتی سروے کیا جس میں ہزاروں لوگوں کے سامنے یہی سوال رکھا گیا اور ان کی اکثریت نے محبت پر اچھے انٹرنیٹ کو ترجیح دے کر ماہرین کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔اس سروے میں 1997سے 2012کے درمیان پیدا ہونے والے لوگوں سے سوالات پوچھے گئے۔ اس نئی نسل کے لوگوں میں سے 77فیصد نے کیریئر میں ترقی کو ترجیح دی اور اس کے بعد دوسرے نمبر پر 74فیصد نے تیزرفتار انٹرنیٹ کنکشن کو اپنی ترجیح قرار دیا۔ 70فیصد نے چھٹیوں پر جانے اور 69فیصد نے نئے دوست بنانے کو ترجیح دی۔ ان کے بعد 51فیصد نے اپنے پارٹنر کے ساتھ وقت گزارنے، 43فیصد نے شادی کرنے اور 40فیصد نے بچے پیدا کرنے کو ترجیح دی۔ ماہرین کی ٹیم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’’یہ شاید پہلی انسانی نسل ہے جس نے فیملی اور محبت پر انٹرنیٹ کو ترجیح دی ہے، جو کہ ہماری نسل کے لوگوں کے لیے بہت حیران کن امر ہے۔‘‘

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔رواں مالی سال کے دوران ہمیں گیارہ ارب ڈالر کا قرض واپس کرنا ہے لیکن ہمارے خزانے میں صرف گندی ویڈیوز، آڈیوز بچیں ہیں۔۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں