تحریر: خرم شہزاد۔۔
ویسے تو صحافیوں اور سیٹھ مالکان کا یہ کہنا ہے کہ آج کل صحافت پر بڑابرا وقت آیا ہوا ہے اور اس وقت ملک میں جتنا ڈاون کاروبار صحافت یعنی میڈیا یعنی اخبار اور چینل کا ہے ، اتنا اور کوئی کاروبار تنزلی کا شکار نہیں۔اگرچہ اس پردو حوالے سے بحث ہو سکتی ہے کہ ایک طرف بہت سے چینل بند ہو رہے ہیں تو دوسری طرف نئے سے نئے چینل نہ صرف اپنی نشریات کا آغاز کر رہے ہیں بلکہ بہت سے لوگوں کی درخواستیںسوا بائیس کروڑ کے بینک ڈرافت کے ساتھ مختلف دفاتر میں ابھی منظور ہونے کے مرحلے میں ہیں تاکہ وہ لوگ بھی چینلز کا آغاز کر سکیں۔ دوسری بات یہ کہ صحافت کب سے ایک کاروبار بن گئی ہے۔ اسے اختیار کرنے والے تو روکھی سوکھی کھانے کا بھی حوصلہ رکھتے تھے، جیل جانے کی بھی ان میں ہمت ہوتی تھی لیکن باوجود ہر مشکل کے، وہ لکھتے سچ ہی تھے کہ چار لائنوں کی خبر اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر دیتی تھی۔خیر زمانے کے انداز بدلے تو صحافت بھی اب مقدس پیشے سے مقدس بی بی کا پیشہ بن کر رہ گئی ہے اوراپنے ہی رنگ رلیاں منانے کے درپے ہیں ۔ فی زمانہ اچھی بات یہی ہے کہ صرف آج کی بات کی جائے اور گزرے وقت کے افسانوں سے درد نہ بڑھایا جائے تو آج کی بات یہ کہ بہت سے چینل بند ہو چکے ہیں اور بہت سے بند ہونے کے قریب ہیں۔ بہت سے اخبارات جو ہر دوسرے شہر سے اپنا ایڈیشن نکال رہے تھے اب بڑے شہروں میں بھی اپنے صفحات کو کم کرتے جا رہے ہیںجبکہ خبر یہ بھی ہے کہ کچھ اخبارات تو اپنے میگزین مکمل بند کر کے اب انہیں آن لائن شائع کرنے کی طرف آ رہے ہیں۔ ایسے میں جہاں بہت سے اخبارات اور چینلز نے کارکنوں کی چھانٹی شروع کی وہیں دنیا نیوزوالوں نے بھی ڈیڑھ سو کے قریب کارکنوں کو آخری سلام کہا اور زمانے کے سمندر میں ڈوب جانے کو چھوڑ دیا۔ اگرچہ ہم اسے مالکان کا حق سمجھتے ہیں کہ وہ جب چاہے جسے رکھے اور جب چاہے جسے نکالے کہ آخر کاروبار تو انہی کا ہے ، اس لیے رکھنے اور نکالنے کا فیصلہ بھی انہی کا ہونا چاہیے لیکن ایک بات جس کی طرف ہمارے محترم دوست سید بدر سعید اشارہ کرتے ہیں اور ہم متفق بھی ہیں کہ کسی بھی کارکن کو نکالنے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔ پیشگی اطلاع دی جانی چاہیے تاکہ وہ اپنا کہیں اور بندوبست کر سکے اور پھر اس کے تمام واجبات بھی ادا کرنے چاہیے۔ نکالے جانے والوں کو جس طرح سے ایک دو ماہ کی پیشگی تنخواہ دینے کا رواج ہوتا ہے اسے بھی اختیار کرنا چاہیے نہ کہ صبح دفتر آئے کارکن کو دروازے پر روکتے ہوئے بتایا جائے کہ اب اس کی ضرورت نہیں رہی اور وہ یہیں سے واپس چلا جائے۔
جو ہونا تھا وہ ہو چکا ، اس صورت حال کے جواب میں بہت سی صحافتی تنظیمیں جمع ہوئیں اور آخر کار دنیا نیوز کے لاک ڈاون کا فیصلہ کیا گیا۔ اگرچہ مجھے ایسے لاک ڈاون سے اکثر اختلاف ہی رہتا ہے کہ ایسے لاک ڈاون بے نتیجہ ہی رہتے ہیں اور بے نتیجہ رہنے کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ صحافتی دنیا دو انتہاوں کے بیچ کہیں گم ہو گئی ہے۔ دنیا نیوز کے لاک ڈاون میں بھی یہ دو انتہائیں بڑی شدت سے محسوس ہوئیں۔ ایک انتہا پر حسن تیمور جھکڑ اپنے دوستوں اور تنظیموں کے ساتھ کھڑا ہے اور دوسری انتہا پر کامران خان موجود ہے۔ ایک انتہا کے لوگ اپنے دوستوں ، ساتھیوں اور کولیگز کے لیے دھوپ میں سڑ رہے ہیں جبکہ دوسری انتہا کے لوگ لاکھوں کا سیلری پیکج لیتے ہوئے اپنے ٹھنڈے کمروں میں چِل کر رہے ہیں اور ان کی بلا سے کوئی بے روز گار ہو کہ موت کا شکار ہو۔ ایک انتہا کے لوگ اپنے برین ہیمرج کے شکار ساتھی اور اس کے گھر والوں کے لیے پریشان ہیں تو دوسری انتہا کے لوگ سیلری پیکج کے ساتھ مختلف دوسرے ذرائع سے آمدنی بڑھانے کی فکر میں ہیں۔ عجب بات ہے کہ دونوں انتہاوں پر صرف اور صرف صحافی ہیں اور ان انتہاوں کے بیچ ہزاروں صحافی ایک عجیب زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یقینا دنیا نیوز والے بحران کا شکار ہوں گے لیکن اگر کامران خان اپنے سیلری پیکج پر دس پندرہ فیصد کی کٹ لگوالیتا تو کئی درجن چھوٹے صحافیوں کے گھر کا چولہا بجھنے سے بچ جاتا۔
مجھے شکوہ دنیا نیوز والوں سے نہیں ہے کیونکہ وہ تو کاروباری لوگ ہیں،مجھے تو صحافتی راہبروں کی راہبری سے سوال ہے۔ سینکڑوں صحافی بے روزگار ہو چکے ہیں، ہزارو ں کے سر پر یہ تلوار لٹک رہی ہے لیکن بڑے صحافی جانے کس بات کے بڑے ہیں کہ ان کے منہ سے ایک کلمہ تک نہیں سنا جس سے کسی کو مرحم نصیب نہ ہو مرحم کا دھوکہ ہی ہو جائے۔ان بڑوں کی آنکھیں سیاست کے ایوانوں سے حکومت کے دالانوں تک اور پولیس کے حوالات تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن اپنی ناک نیچے ، اپنے ٹھنڈے کمرے کے باہر غربت اور بے روزگاری کا شکار ہوتے اپنے صحافی انہیں نظر نہیں آتے۔ اس صورت حال میں بھی صحافتی تنظیموں کی گنتی درجنوں تک پہنچی ہوئی ہے اور یہ بحرانی صورت حال بھی انہیں اکٹھا نہیں کر سکی تو جانے کس کی موت انہیں ایک ہونا نصیب کرئے گی۔ آج ہر چینل اور اخبار کا نمائیدہ کسی نہ کسی سیاست دان، حکومتی عہدیداریا پھر کسی پولیس والے گھیرے ہوئے کھڑا ہے اور جواب طلب کر رہا ہے، اپنے سوالوں میں نہ موقع دیکھتا ہے اور نہ جگہ ، لیکن عدالت لگائے سزا سنانے کو اتاولا ہوا پھرتا ہے لیکن بے روز گار ہوتے صحافیوں کا پرسان حال کون ہو گا، اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے اور جب تک صحافت دو انتہاوں کے بیچ رہے گی، صحافی اسی طرح بے روز گار ہوتے رہیں گے، ہسپتال جاتے اور مرتے رہیں گے اور آسمان صحافت کے نرالے رنگوں کا گواہ بن کر رہ جائے گا۔ (خرم شہزاد)۔۔
مصنف کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسیوںکا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر۔