maslon ka masla

حرام اور حلال

تحریر: خرم علی عمران ۔۔

آسانیوں کے متوالے، مطلب نکالنے کے لئے پر حد سے گزر جانے والے اکثر یوں کہتے نظر آتے ہیں  کہ بابا کیا کریں مجبوری ہے نا ، کام نہیں بنتا بھئی اس کے بغیر تو، کھلانا پلانا تو پڑتا ہی ہے نا کام نکلوانے کے لئے بھیا!، اس کے علاوہ میاں جی گزارہ کہاں ہو سکتا ہے یہاں ! کچھ اسی قسم کی باتیں ضرور کبھی نہ کبھی آپ کے کان میں پڑتی تو ہونگی ۔ چمنستانِ بدعنوانی یا کرپشن کے گلشن کے گلہائے ذلت و نکبت میں سے یا بے ایمانی کی ناجائز اولادوں میں سےایک گلِ بد رنگ و بد بو یا اک طفل حاملِ طلسمی خوبو، ” زر ومالِ حرام” بھی ہے،کیا بات ہے صاحب اس شرارتی سے لونڈے کی ، اس کی اپنی ہی منفرد سی پالی پالی سی خصوصیات ہیں، اسے اختیار کرنے والے کی زندگیاں دنیا میں بظاہر پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں کے حساب میں نظر اتی ہیں، منہ میں سونے کا چمچا، کھانا چاندی کے پیالے میں، سونا ریشم کے بستروں پر، سفر خوابوں کے سے ڈالے میں۔ مالِ حرام کے اختیار کنندہ  تو بھئی  جب بھی نظر آتے ہیں ،بڑے مزوں،  لذتوں،آسائشوں اور نعمتوں میں ہی گھرے نظر اتے ہیں، غریب غرباء، عوام الناس یا اس مالِ حرام سے محروم لوگ بڑی رشک بھری نگاہوں سے مالِ حرام سے بھرپور زندگی کو،اس کی رنگینیوں،لذتوں ،لطف و الطاف کو بہ حسرت و یاس تکتے نظر پڑتے ہیں ، مگر یہ مالِ حرام اپنے اندر کچھ ایسی جادوئی طلسمی سی خاصیتیں بھی رکھتا ہے جنابِ والا! جو انت میں سو سو آنسو رلاتی ہیں اور جینا مرنا دشوار بناتی ہیں ،ہاں ہاں یقین مانیں،سچ کہہ رہا ہوں۔ دیکھیں مثلا، مالِ حرام کی تاثیر تو بڑے بزرگ کہتے ہیں اور کتابوں میں بھی لکھا ہے  کہ بھیا خارش کی سی مثال ہے خارش میں جتنا کھجاؤ ، اتنا مزہ آتا جاتا ہے،مگر ساتھ ساتھ ہوتا یوں ہے کہ جتنا زیادہ کھجائے جاؤ خارش بڑھتی ہی جاتی ہے اور بلاآخر خارش زدہ حصے  سےخون نکل آتا ہے،زخم بن جاتا ہے، بلکل ایسے ہی مالِ حرام جتنا کمائے جاؤ ہوس بڑھتی ہی چلی جاتی ہے ،اور آخر میں مثال، عبرت بنے ،گوناگوں بیماریوں، کلفتوں، الجھنوں اور اذیتوں کے دیدہ اور نادیدہ زخموں میں گھرے نظر آتے ہیں، کیا ایسا نہیں ہے؟ لوگوں کی نظروں  میں بے عزت اور ذلیل اور بے ایمان سمجھے جانا اس پر مستزاد ہے۔

دینی نقطہ نگاہ سے تو صرف اتنا بتادینا کافی ہوگا کہ سرکارِ دو عالم ﷺ کی اک حدیث پاک کا مفہوم کچھ یوں ہے اور تمثیلا بیان کیاگیا ہے کہ جسیے ایک شخص ہے وہ مسافر ہے کہ مسافر کی دعا قبول ہوتی ہے، شب قدر میں خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ کر رو رو کر اللہ تعالی سے دعا مانگ رہا ہے” اور یہ ساری باتیں دعا کے قبول ہونے کے بڑے لوازمات ہیں یعنی مسافر ہونا، شبِ قدر، حرم پاک، کعبے کا پردہ “، لیکن اس کی دعا سر سے ایک ہاتھ تک بھی اوپر نہیں جاتی کیونکہ اس کے پیٹ میں کھاناحرام،پینا حرام اس کے جسم پر لباس حرام(المفہوم) ، تو لقمہ حرام ان ساری فضیلتوں  یعنی مسافر ہونے، حرم پاک کا مقام ہونے، شبِ قدر ہونے اور غلافِ کعبہ پکڑنے کی فضیلت پر  بھی بھاری پڑ گیا جن فضائل کی وجہ وہ  شخص دعا کی قبولیت کا امیدوار ہے اور دعا رد ہو گئی۔ تو مالِ حرام نے گویا طے شدہ بات ہے کہ حرام خوروں کی آخرت تو تباہ کردی تاوقتیکہ کہ وہ توبہ و کفارے کے عمل سے نہ گزریں، یہ تو طے ہوگیا، باقی وہ اب اپنی جو بھی منطقیں، تاویلیں تراشتے رہیں، درباری ،سرکاری بزرجمہر، علماء  و عقلاءجو بھی گنجائشیں انہیں کو بتاتے رہیں ،پکڑ اور شدید پکڑ  اور مکافاتِ عمل ہونا تو لازمی ہے۔ اب آئیے ذرا دنیا کی جانب جو عملا ہمارے لئے آخرت پر مقدم ہے اس دنیا میں مالِ حرام اپ کے ساتھ کیا مکافاتِ عمل کر رہا ہے اسے ذرا مختصرا دیکھتے ہیں۔

مال حرام کمانے والے،کھانے والے، کھلانے والے، ہر سطح کے چھوٹے بڑے ، سرکاری و غیر سرکاری افراد  اکثر و بیشترگوناگوں ذہنی،جسمانی،نفسیاتی اور اخلاقی بیماریوں میں گھرے ہوئے ہی ملتے ہیں، جب تک مٹھی بھر نیند کی گولیاں یا مشروباتِ خاص کا استعمال نہ کریں  ڈھنگ سےسو بھی نہیں پاتے ہیں، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں،ہزاروں لاکھوں چلتی پھتی مثالیں روز مرہ کی زندگی میں یہاں وہاں اور سارے جہاں میں نظر آتی رہتی ہیں، ان کی مالِ حرام سے بنائی گئی دولت بھی ان کی کفایت و مدد کرنے سے اکثر و بیشتر جگہوں پرقاصر نظر اتی ہے،  سب لوگ بھی ملنے جلنے والے،احباب و غرض مند بھی بظاہر ان سے اپنے کام  نکلوانے کے لئے بڑی محبت اور عقیدت سے ملتے ہیں مگراپنی خلوتوں میں یا حلقہ یاراں اور نجی محفلوں میں وہ انہیں یعنی حرام خوروں کو جن الفاظ سے یاد کرتے ہیں اس سے سب ہی واقف ہیں، گویا مالِ حرام کا بڑا نتیجہ تندرسی جو کہ ہزار نعمت ہے، سے محرومی اور لوگوں کے دلوں میں حرام خوروں کے لئے فطری و قدرتی نفرت و ذلت ہے۔

کہیں پڑھا تھا شاید بانو آپا یعنی مرحومہ بانو قدسیہ کے” راجا گدھ “میں کہ طبی نقطہ نگاہ سے لقمہ حرام آپ کے جسم میں کچھ ایسے ہارمونز  ایسے مادے پیدا کر دیتا ہے جو تباہ کن خاصیتوں کے حامل ہوتے ہیں اور مال حرام کے عادی کو پھر مزہ صرف بس ہر طرح کے حرام کاموں میں ہی اتا ہے اور حلال افعال سے نہ صرف اسے رغبت نہیں رہتی بلکہ گھبراہٹ سی ہوتی ہے اور اسکا بدیہی نتیجہ اس دلدلِ حرام میں مزید دھنستے ہی چلے جانا ہوتا ہے، پھر یہ بھی کہ مالِ حرام جس نوعیت کا ہو، جس شعبے میں جس طرح سے بھی بنایا جارہا ہو،جس ترتیب سے بھی کمایا جاریا ہو ایک بات تو مشترک ہے کہ ضرور بالضرور کسی حقدار کا حق مارا جارہا ہوتا ہے یا  کسی با صلاحیت مگر کمزور، بےآسرا،غریب کی میرٹ کا قتلِ عام ہورہا ہوتا ہے یا بے ایمانی سے کسی حاجت مند کا مستحق کا استحقاق مجروح کیا جارہا ہوتا ہے،تو پھر وہ جس کا حق غصب کیا گیا ہو  وہ بے چارہ بسببِ ضعف و کمزوری اگر کچھ اور کر پائے نہ کر پائے آہ تو بھرتا ہی ہوگا، اس کے دل سے بد دعا تو نکلتی ہی ہوگی اور یہ آہیں اور بد دعائیں مالِ حرام کمانے والوں کو گھیر لیتی ہیں ان کا پیچھا کرتی ہیں اور اب تو جدید تحقیق  برائے سوشل و مائنڈ سائنسزبھی تسلیم کرتی ہے کہ دعا ایک تعمیری انرجی ایک ایسی توانائی ہے جو اپنے مثبت اثرات مرتب کرتی ہے تو اگر دعا ایک تعمیری انرجی ہے تو پھر بددعا  اور آہ یقینا تخریبی انرجی ہوگی جو حرام خوروں کے چین سکون اطمینان و طمانیت کو کھاتی چلی جاتی ہے انہیں تباہ کردیتی ہے۔

تو حاصل کلام کچھ یوں بنا کہ بھائی مرے! مال حرام سے بچو اور” کسب حلال عین عبادت ہے “کی عبارت  پر از بس یقین رکھو  اور تکیہ کرو کہ وہ تھوڑا ضرور ہوتا ہے اور اس میں مشقت بھی کچھ ذرا سی زیادہ ہے مگر وہ آپ کی دنیوی اور اخروی فلاح اور چین و سکون کا ضامن ہے۔ باقی آپ کو اختیار ہے کہ آپ اس تحریر کو پڑھ کر  سر جھٹکیں ،ایک طنزیہ ہنکارا بھریں، ڈیوائس کو غصے میں پٹخیں ،یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ارے یار! یہ بلاگ ہے یا  کوئی جمعے کا وعظ ،اور  پھرموڈ ٹھیک کرکے ہنستے مسکراتے، بہ مسرت و شادمانی، نت نئی تاویلات تراشتے ہوئے،  خود کو دلاسے دیتے ہوئےاوردل و دماغ کی تسلی کے لئے کچھ تھوڑا بہت مال بشکل صدقہ و خیرات لٹاتے ہوئے،  عیاری و مکاری کے تیشے، سفاکی و بے رحمی کی کدال سے نت نئے انداز میں مال حرام کے پہاڑوں سے بڑے بڑے پتھر  بس توڑتےجائیں خوب توڑتے جائیں اور انہیں اپنے اپنے عالیشان محلوں میں اپنی یہاں وہاں کی جائیدادوں میں اور بینک اکاؤنٹس میں جوڑتے چلے جائیں۔ آپ کو کون روک سکتا ہے بھئی! اور ہاں جنابِ والا! ان عالی شان محلوں پر ھذا من فضل ربی کندہ کرانا تو ہرگز ہرگز نہ بھولئے گا کہیں بے برکتی  ہی نہ ہوجائے نا،(خرم علی عمران)،،

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں