تحریر: خرم علی عمران
یو شٹ اپ ! بیٹھ جاؤ، بہت بولتے ہو تم، ہر وقت سوال پر سوال، حد ہوگئی،چپ کرو بس، اساتذہ عالمِ طیش میں اسطرح سے کہتے ہوئے اکثر و بیشتر نظر آیاکرتے ہیں،آپ کو بھی شاید کبھی اس صورتحال سے سابقہ پڑا ہو کہ دوران طالب علمی اس طرح جراتِ سوال پر ڈانٹ کھائی ہو، یہ ایک عام تعلیمی رویہ ہے، الا ماشااللہ، اور فی زمانہ اس میں دینی اور دنیاوی کہلائے جانے والی دونوں طرح کی درس گاہوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے ،بالعموم ایسا ہی ہوتا ہے،اور ایسا ہی رویہ روبہ عمل نظر آتا ہے۔ درسی رٹی رٹائی باتوں،علوم نقلیہ و عقلیہ، اسباقِ درسیہ،کورس سلیبس ان سب میں بھی بس مخصوص حد تک ہی آپ سوالات کر سکتے ہیں، اور اس دائرے سے باہر جانا تو گویا قیامت مچا دیتا ہے، اساتذہ کے سامنے نصاب سے ہٹ کر سوال کرنا بہت برا مانا اور جانا جاتا ہے ،کیا ایسا نہیں ہے؟ اور کچھ زیادہ ہی نہیں ہے؟ اور اگر ہے تو کیا یہ ایک صحت مندانہ رویہ ہے، بلکل نہیں، بلکہ اگر اسے تباہ کن رویہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے کہ “سوال کرنا آدھا علم ہے” جب ہم ایک بچے کو شروع ہی میں ذہنی غلامی کی تربیت دیں گے،جب ہم ایک طالب علم کو اس کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا بشاشت اور توجہ سے جواب دینے کی بجائے ڈانٹ کر اسے چپ کرانے پر زیادہ توجہ دیں گے، تو پھر کیا ہم اختراعی سوچ،ذہنی وسعت و بلندی، خوداعتمادی اورآگے بڑھنے کی اس کی صلاحیت پر پابندی و قدغن نہیں لگا رہے ہوتے؟ اس کا سلیف کانفڈنس کیا تباہ نہیں کررہے ہوتے؟،جو بچہ بے چارہ بچپن ہی میں یوں ڈرا دیا جائے گا وہ بڑا ہوکر آرگیومنٹس کرنے کے قابل ہی کہاں رہ پائے گا۔ جب آپ ایک بچے میں،ایک طالب علم میں ابتدا سے ہی یہ سوچ پیدا کریں گے کہ سوالات کرنا بڑی فضول سی بات ہے،ہم جو پڑھارہے،سکھا رہے،فرما رہے ہیں بس وہی درست ہے، بس اسی کو رٹ لو، کافی ہوگا، باقی سب غلط ہے تو ہم دراصل مستقبل کے ذہنی غلام تیار کرنےکا ڈول ڈال رہے ہوتے ہیں جو بے چارےآگے کی زندگی میں پھر بس اثبات میں سر ہلاتے ہی نظر آتے ہیں اور اس طرح کے افراد کے مجموعے سے پھرجوشاندار سی قوم تیار ہوتی ہے وہ پھر دیگر اقوامِ عالم کے سامنےغلامانہ انداز میں اثبات میں سر ہلاتی اکثر و بیشتر نظر آیا کرتی ہے۔
پھر مزید یہ کہ یہی رویہ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں منعکس ہوتا نظر آتا ہے، مذہبی حلقوں میں تو کسی اختراعی سوچ کا ذکر کرنا، کوئی نیا سوال اٹھانا، کسی طرح کا استفہامی رویہ تو خیر گناہ سے ہی تعبیر کر دیا جاتا ہے کہ وہاں سب سے زیادہ پختہ اس سوچ کو کیا جاتا ہے کہ ہمچو ما دیگرے نیست، بس ہم ٹھیک ہیں ہمارے اکابر اساتذہ جو کہہ گئے،لکھ گئے بس وہی درست ہے اور سب گمراہی ہے۔ اسے یاد کرو،رٹو اور سینہ بہ سینہ بڑے فخریہ انداز میں آگے بڑھاتے جاؤ، سوال مت کرنا ورنہ باغی قرار دے دیئے جاؤ گے، سب جگہ ایسا نہیں ہے مگر جہاں ایسا نہیں ہے ان کی تعداد اٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے، کئی سو سالہ پرانا نصاب برائے مدارس اپنالیا گیا ہے جس میں شامل بہت سے علوم تو اب بلکل اسی طرح آؤٹ آف ڈیٹ ہوچکے ہیں جیسے ٹیلی گرام ڈاک اور بحری جہازوں میں استعمال ہونے والا مورس کوڈ اب آفیشلی دنیا سے ختم کردیا گیا ہے،ظاہری سطح پر کبھی کبھار کچھ معمولی درجے کی تبدیلیاں برائے نصاب کردی جاتی ہیں مگر بنیادی کتابیں اور درسی مضامین و موضوعات اور طریق ہائے تدریس میں وہی لکیر کی فقیری مستانہ وار اختیار کی جاتی ہے۔ مدارس کے در و دیوار کی خاک میرے سر پر،بلاشبہ وہ بقائےدین و اشاعت و تبلیغِ دین او حصولِ علم کا بہت بڑا ذریعہ ہیں ،مگر سوالات کی اجازت اور نصاب پر نظر ثانی تو ہونی جاہیئے ،یا نہیں؟
ہمارا معاشرتی رویہ بھی اسی کا عکاس ہے، سوال مت کرو، بات مت کرو، جو جس جگہ کسی پوزیشن پر ہے تو بس اس کے متابعین ،ماتحت اور ملازمین کے لئے بس صاحب کی بات گویا پتھر پر لکیر ہے، باس کی بات کبھی غلط نہیں ہوسکتی بھائی کیونکہ وہ کرسی پر ہے اور اپ دوسری طرف، سو وہ کتنی بھی بڑی بونگی ماریں اپ نے سوال نہیں اٹھانا،بلکہ ہاں میں ہاں ہی ملانا ہے ورنہ پھر خیر نہیں، کیا ایسا نہیں ہے،ہم میں سے عظیم اکثریت اب مختلف سماجی اور معاشرتی وجوہات کی بنا پر بھیڑ چال، یس سر، یس سراور گیڈر کی سو سالہ زندگی گزارنے کی عادی ہوگئی ہے۔ ہم دراصل اب جیسا چل رہا ہے بس چلنے دیں یار، مٹی پاؤ بس، والی ترتیب کے خوگر سےہوگئے ہیں۔
اس رویئے عادت اور رواج کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے،سوالات کرنے کی آزادی دینی ہوگی،ذہنی غلامی سے نکلنا ہوگا، جن اغیار کی ،اہل مغرب کی ہم ہر طرح سے بڑے فخر سے نقل کرتے ہیں،انکے طرز زندگی کو بڑے اشتیاق و محبت سے اپنا تے ہیں،جنکی تہذیب و ثقافت کی بڑی تحسین کرتے ہیں اور جنکی ترقی ہماری آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے انہوں نے بھی صدیوں پہلے قدم ِ اول کے طور پر سوال کرنے کی آزادی کا ڈول ڈالا تھا،علمی و فکری جمود کو توڑا تھا اور خود کو اختراعیت اور آزادی ئ فکر سے جوڑا تھا، پھر شاہراہ ترقی پر چلے تھے۔ سوالات اور آرگیومنٹس کرنے کی آزادی کا مطلب مادر پدر آزادی بلکل نہیں بلکہ ہم اپنی مذہبی اور معاشرتی و تہذیبی اقدار کے حوالے سے کچھ ریڈ لائنز طے کر کے کم از کم ابتدائی درجوں سے ہی اپنے بچوں میں،جو کہ ہمارے مستقبل کے معمار ہیں،آئندہ ملک کے مختلف شعبوں کی باگ دوڑ سنھالیں گے، سوالات کرنے کی حوصلہ افزائی کا اگر رویہ اپنا لیں گے تو بنیاد تو کم از کم درجے میں درست ہو ہی جائے گی۔تو پھر ہوجائے پر شقفت لحجے میں اب سوال مت کرنا کی جگہ ہاں ہاں پوچھو کا آغاز، کیوں کیا خیال ہے؟۔۔۔(خرم علی عمران )