تحریر: سید عارف مصطفیٰ
زندگی میں کچھ نہ کچھ کمی رہ تو گئی ہے اور اسکی بابت کبھی کبھی کچھ شکوے سے بھی کرتا سنا جاتا ہوں البتہ ایک معاملے میں قدرت بڑی فیاضی سے ‘سہولت کار’ بنی ہے اور وہ ہے اندھا دھند مشورے دینے والے خدائی رضاکاروں کی انتھک خدمات ۔۔۔۔ ! بلکہ درحقیقت میں اسی واحد معاملے میں خود کفیل ہوں کیونکہ اک بڑے سائز کے ایسے تہذیبی خاندان کا چشم و چراغ ہوں کہ جہاں نسب میں شرافت ڈھونڈھنے اور ہر معاملے میں بنا مانگے مشورے دینے کا عمل مشترکہ خاندانی مشغلہ سا ہے لیکن ایک حوالے سے ہمارا خاندان دوسروں کی نسبت کسی قدر خاص بھی ہے کیونکہ ہمارے پاس ایک بزرگ ایسے بھی ہیں کہ جنکے طبی مشوروں کے لیئے پہلے بیمار پڑنے کی شرط اور جھنجھٹ بھی نہیں ہے اور مزید خاص بات یہ بھی ہے کہ انکے اس طبی مشورے کو لینے والا چند روز بعد ہی اس نسخے کو استعمال کرنے کے قابل بھی ہوجایا کرتا ہے ۔۔۔ ویسے خود کئی امراض کا شکار ہونے کے باوجود وہ ہمہ وقت طبی مشاورت کے ذریعے بہبود عامہ کے لیئے نہایت بیقرار رہتے ہیں اور منفرد صفت یہ کہ جوکوئی یونہی انکے آس پاس ذرا دیر کو بھی آ بیٹھے تو وہ ایک دو ان امراض کے علاج کے نسخے لیئے بغیر نہیں اٹھ پاتا کے جنکے آثار وہ اس میں باآسانی و بغیر بتائے بھی تلاش کر ہی لیتے ہیں ۔۔ شومئی قسمت ذرا زیادہ تؤجہ دینے والے سامع میں تو وہ متعدد امراض کی علامتیں کچھ اس دلسوز و ہیبتناک طور سے بتاتے ہیں کہ خشوع و خضوع سے سننے والا آناً فاناً خود میں یہ سارے امراض موجود پانے لگتا ہے اور انکے نسخوں کے حصول کے لیئے مچل مچل اٹھتا ہے-
اس قدر بھانت بھانت کی بیماریوں کے علاج کے بیشمار نسخے انہیں کہاں سے ملے اسکے بارے میں صرف اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے کیونکہ یہ حقیقت بڑی واضح ہے کہ وہ صرف عموماً نہیں بلکہ خصوصاً مطالعے سے یکسر پرہیز کرتے ہیں بلکہ شاید مطالعے کو بھی وہ صفت اور تاثیر کے لحاظ سے بادی اور ثقیل باور کرتے ہیں۔۔۔ اسی سبب ، مجھے انکی نسبت ، یقین سے بس ایک درجہ کم درجے میں یہ خصوصی شبہ ہے کہ طبی علم و حکمت تو کیا یونان کی نسبت بھی انکی معلومات بس اسی قدر ہونگی کہ وہ اسے دنیائے عرب کا کوئی علاقہ باور کرتے ہونگے کہ جہاں حکمت کی خصوصی معلومات و مہارت پانے کے لیئے وہاں صرف پیدا ہونا ہی کافی ہوتا ہوگا – گویا انکی طبی و غیر طبی معلومات کا ماخذ نسل در نسل منتقل ہوتا سینہ گزٹ ہی ہے-انکی بابت میرے مبینہ ‘معاندانہ احساسات’ اپنی جگہ ، لیکن انکی نسبت میرا ماننا یہ ہے کہ موصوف مشورہ دینے کے اعداد و شمار کے لحاظ سے حاذق دوراں کہلاسکتے تھے جو اگر انکے بیشتر نسخے لینے والے تہ خاک نہ چھپ گئے ہوتے اور یہ سلسلہ کبھی جو ذرا لمبے وقفے تک بھی تھم گیا ہوتا – اسّی کے پیٹے میں ہونے کے باوجود انکا ناقابل شبہ ریکارڈ ہے کہ ان سے نسخہ لینے والے کبھی کسی دوسرے مرض سے مرتے نہیں دیکھے گئے۔۔۔۔، تاہم انکے اخلاص پہ شبہ کرنے کی گنجائش بھی کبھی نہیں نکل سکی کیونکہ انہوں نے اپنے نسخوں پہ منحصر کئی مریضوں کی تجہیز و تکفین میں بھی اسی انہماک سے شرکت کی کہ جس والہانہ پن سے انہیں نسخہ جات کی تابڑ توڑ رسد فراہم کرتے رہے تھے ۔۔۔ میں یقین سے نہیں کہ سکتا کہ میں ان سے بہت گھبراتا ہوں یا ان میں میرے مسلسل تعاقب کی صلاحیت زیادہ ہے تاہم وہ جب بھی روبرو ہوتے ہیں کافی دیر انکا اور میرا ایک مچیٹا سا چل نکلتا ہے جس میں ہونے والی گفتگو کے ہر دس بارہ جملوں میں کم ازکم ایک تو میرا بھی ہوتا ہے اور اس تنقیدی تبادلہء خیال کے بعد انتقامی و التزامی انداز میں تادیر انکے سینہ گزٹ نسخہ جات ابل ابل کے انکے منہ سے نکلتے اور میرے کانوں میں داخل ہوتے رہتے ہیں اور ان میں سے کئی کے تونام ہی ابکائی آور سے معلوم ہوتے ہیں اور جنکے ذکر ہی سے میں کچھ دیر کے لیئے خود کو بیمار بیمار سا محسوس کرنے لگتا ہوں اور یہ طبی گفتگو شروع ہوتے ہیفضاء میں کچھ اسی طرح کافوری بو محسوس ہونے لگتی ہے کہ بشاشت اور راحت کا ہرامکان کافور ہوتا محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔۔
گزشتہ ہفتے کی ایک خاصی گرم سہ پہر ، ضعف و نقاہت کے باوجود حضرت نے غریب خانے پہ قدم رنجہ فرمایا اور چونکہ میں وافر فارغ حالت میں انہیں ہاتھ لگ گیا تھا لہٰذا فرار کے رستے مسدود پاکر میں نے نہایت خوش اخلاقی ظاہر کرنے ہی میں عافیت جانی اور انکے سامنے حاضر رہ کر میں بڑی برخورداری سے وقفے وقفے سے ان کو باری باری پانی اور چائے پلاتا رہا اور وہ مجھے حسب توفیق جھاڑ پلاتے رہے ساتھ ہی ساتھ وہ حسب عادت میری اس بات پہ کافی دیر رنج و غم کا اظہار کرتے رہے کہ انکی انتہائی کاوشوں کے باوجود میں ہنوزایک کندہء ناتراش ہوں اور حسب سابق اب بھی ہر طرح کی حکمت خصوصاً طب یونانی سے مکمل نابلد ہوں بلکہ ان طبی امور سے بے پایاں و خصوصی بغض رکھتا ہوں اور یوں اپنی اس ذاتی بے مثل غفلت و شدید حماقت کے باعث عالم انسانیت کی رضاکارانہ خدمت پہ مامور ان جیسے گشتی شفاخانے سے مستفید ہونے کی سعادت سے خود بھی محروم رہتا ہوں اور اپنے ممکنہ لواحقین کو بھی اس نعمت سے دور رکھتا ہوں اور میرا یہ فعل شنیع کسی بڑے گناہ کے درجے میں شمار کیئے جانے لائق ضرور ہے اور یقینناً میرا یہ عمل میری بخشش کے آڑے آسکتا ہے۔۔۔۔ انکا یہ ملامتی خطبہ اس بار ذرا طویل ہوگیا تو وہ اس دوران نجانے کتنا پانی پی گئے کہ جبتک حضرت کو’آب کاری’ خطرے کا احساس ہؤا انکا عمر رسیدہ مثانہ آمادہء بغاوت ہوچکا تھا اورپھرجیسے تیسے بیت الخلاء پہنچتے پہنچتے عین در حاجت کنارے ، انکے ‘چشمہء بوسیدگی ‘ سے بغاوت کے دھارے بہ نکلے ۔۔۔
تاہم چونکہ جو جہاں نہیں ہونا چاہیے تھا وہ تو وہاں ہو ہی چکا تھا چنانچہ اس خفت آمیز اور نازک صورتحال میں انہیں جھٹ پٹ غسلخانے پہنچایا گیا اور فی الفور میری ایک استری شدہ شلوار کی کمک فراہم کی گئی ۔۔۔ اس عمر میں اس ناگہانی صورتحال میں انکی شرمندگی کے تصؤر سے ہی مجھے بہت خجالت سی محسوس ہو رہی تھی چنانچہ جب وہ جیسے تیسے میری شلوار پہن چکے اور کمرے میں لائے گئے تو نجانے کیوں میری نگاہیں یوں جھکی ہوئی تھیں کہ جیسے سارا قصور میرا ہی ہو ۔۔۔ اور کچھ تو اسی بے بنیاد احساس گناہ کے تحت اور کچھ اپنی طبعی شرافت کی وجہ سے ( اور جسے بہتیرے اکثرکھوج نہیں پاتے) میں خاصا نادم نادم سا ہوگیا تھا اور پھر میں نے محض انکی تالیف قلب اور رفع خفت کے لیئے بات کرنے کو چند نہایت خوشدلانہ مگر محتاط جملوں کا انتخاب کیا کہ مبادا ذرا سی بے احتیاطی انکی بہت آزردگی کا سبب نہ بن جائے ۔۔۔ حتی الامکان بلند اخلاقی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش میں ، اور محض انکی دلبستگی کے لیئے میں نے ایک جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے بہت سنبھل سنھل کے کہنا شروع کیا کہ” جناب کبھی کبھی زیادہ پانی پی لینے اور بروقت فراغت نہ ہوسکنے کی وجہ سے بھی ایسا ہوجاتا ہے ۔۔۔ خود ایک دو بار اسی طرح میرے بھی ایک دو قطرے ۔۔۔ اس پہ بزرگوار کے چہرے پہ یکایک ایک عجب سی چمک کوند گئی ، جھٹ سیدھے ہوکے بیٹھ گئے اور بڑی تیزی سے صوفے پہ میری جانب آگے کو سرک آئے ۔۔ جس پہ میں بولتے سے رک گیا ۔۔۔ لیکن وہ میری طرف بہت جھک گئے اور ایک گونہ مطمئن سی شتابی اور نمایاں طور پہ جھلکتے فخر سے ترنت بولے ” لو میاں ،، اس مسئلے کے بارے میں ہمیں پہلے کیوں نہ بتایا ، اس خرابی کا تو بہت زبردست علاج طب یونانی میں ہے اوراسکی کئی مجرب دوائیں ہیں لیکن ایک دوا تو خاص ہے گویا تیر بہدف ہے اور۔۔۔ اور ۔۔۔ ۔(سید عارف مصطفیٰ)