تحریر: محمدنواز طاہر
اوئے جھوٹے بات سنو ۔۔ یہ آوازسنی تو بزرگوارکی خدمت میںآداب بجا لایا ، اوئے جھوٹے۔۔ پرکچھ دیر انجوائے کیا تو گویا ہوئے کہ اب تو تم رپورٹر لوگ سکہ بند جھوٹے بن رہے ہو ، جواب میں اثبات میں سر ہلانے اور شرمندگی کے ماسوا کچھ نہیں تھا ۔ یہ بزرگ عدلیہ میں اہمیت کی حامل پوسٹوں پر رہے ہیں اور ان سے پیار محبت میں بھی فائل چھین لینا ہمارے لاڈ کا خاصا رہا ہے ورنہ عموماً وہ فائل چھپاتے نہیں تھے ۔ چیف جسٹس کے پاس فائل پہنچنے سے پہلے ہمیں مخبری ہوجاتی ۔۔ د و ایک بار انہوں نے چیک کیا کہ فائل دیکھے بغیر سنی سنائی کہانی پر بھی خبر بناتے ہیں یا نہیں تو اس میں انہیں جوا ب’ نہیں‘ میں ملا، انہیںیقین تھا کہ رپورٹر جھوٹی خبر فائل نہیں کرتا لیکن یہ جانتے تھے کچھ اینگلنگ کرکے ٹوئسٹ کرلیتے ہیں ۔ آج کویہی تیس سال کے بعد انہوں نے’اؤے جھوٹے ۔، کہہ کر پکارا تو کچھ دیر کے بعد ہم ٹرنر روڈ کے کارنر پر چائے اور گرم گرم گلاب جامن بھی مقابلے میں ’قتل‘ کررہے تھے ۔ جی ہاں” پری وینشن آف الکٹرانک کرائمز ایکٹ ‘ جو پیکا سے معروف ہے ، پر گفتگو کررہے تھے ، اس کے محرکات ، اثرات ، تحفظات پر بھی گفتگو ہوئی ماخذ، محرکات اور نیت و ضرورت پر بھی بحث ہوئی لیکن سب سے زیادہ توجہ طلب ان کا یہ استفسار تھا کہ جب رپورٹر جھوٹی خبر فائل ہی نہیں کرتا تو پھر اسے جھوٹی خبر کے خلاف قانون سے ڈر کاہے کا ۔۔؟
اس وقت تمام صحافتی تنظیمیں جھوٹی خبر کی حمایت کرتی دکھائی دیتی ہیں ، یہ تنظیمیں اس قانون کی مخالفت کرکے یہ ثابت کررہی ہیں کہ انہیں جھوٹی خبر کی جازت ہونا چاہئے یا وہ جھوٹی خبر دینے کے حق میں ہیں ، انہوں نے کچھ ساتھیوں کا خاص طور پر ذکر کیا جن میں سے بدرالاسلام بٹ ،تاج الدین حقیقت ، محمودالزمان ، قربان انجم ، منیر کاظمی، فاروق شاہ، اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں جبکہ سرفراز سید، سعیدآسی ، انجم رشید ، حسنین قریشی ، جلیل الرحمان حیات ہیں ، اورکہا کہ میں نے ان میں سے کسی کوکبھی جھوٹی خبر دیتے نہیں دیکھا ،یہ لوگ تو خبر کی صداقت پر جھگڑا کرلیتے تھے تو پھر آج یہ جھگڑا جھوٹی خبر کے تحفظ کےلئے کیوں ہے ؟ اتفاق ہے کہ شام کو انجم رشید سے ملاقات ہوئی تو میں ان سے استفسار کیا کہ کبھی مذاق، شرارتاً یا لاعلمی میں جھوٹی خبر فائل کی ہو تو بولے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، رپورٹر اتنا بیوقوف نہیں ہوتا، یہ سوال ہی احمقانہ ہے اور تم سے یہ امید نہیں تھی، یہی سوال میں نے اس سے پہلے سینئر فوٹوگرافر پرویز الطاف سے دھرایا کہ کیا کبھی جھوٹی تصویر فائل کی تو بولے تصویر جھوٹی کیسے ہوسکتی ہے ؟ البتہ اس میں کتربرید ہوسکتی ہے اور اس وقت جدید نظام میں ایسا ہوبھی رہا ہے جبکہ ماضی میں ایسا کرنا مشکل تھا اور جو کرتا تھا ، اس کا تصویر دیکھنے پر پتہ چل جاتا تھا۔ خبر فائل کرنا بنیادی طور پر رپورٹر کا کام ہے اور وہ کن حالات میں کام کرتا یا فوٹو گرافر کوکس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا علم جھیلنے والوں کو ہے مشکلات پیدا کرنے والوں کو اندازہ نہیں ، ابھی ایک روز پہلے ہی یہ پروفیشنل المیہ اورلطیفہ سامنے آیا کہ لاہور میں جنگ گروپ کے پاس کیمرہ نہیں لیکن فوٹوگرافر کی ایک اہم ترین ایونٹ کور کرنے کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی ۔ یہ ورکنگ کنڈیشنز ہیں رپورٹر اور فوٹوگرافرز کی جنہیں نے خبریں دینی ہیں ، اب ذرا سب ایڈیٹرز کی حالت بھی دیکھ لیں کہ جو صفحہ ایک سے زائد سب ایڈیٹر مل کر تیار کرتے تھے اب ایک سب ایڈیٹر ایک سے تین صفحات تیار کرتا ہے ۔۔ ایک طرف کارکنوں کی چھانٹیاں کی گئیں اور ان پر کام کا بوجھ بڑھایا گیا تو دوسری طرف ان تمام صفحات کی تمام ذمہ داری بھی ایک شخص پر ہے، یہ بوجھ تب سے زیادہ بڑھا ہے جب سے اخبارات میں ایک اسٹیشن پر بیٹھ کر کئی اسٹیشنوں کے اخبار تیار کیے جاتے ہیں ، ان ااسٹیشنوں کے بھی جہاں انکے دفاتر ہیں نہیں ، ایک اخبار ایسا بھی ہے جس کے پاس لاہور میں آئی ٹی این ای کے ریکارڈ کے مطابق رپورٹنگ ٹیم نہیں لیکن وہ ملک کے تیرہ شہروں سے شائع ہوتا ہے ، نوائے وقت گروپ کا گوادر میں کوئی دفتر نہیں جو اخبار شہر میں یا ملحقہ علاقوں یعنی بلوچستان میں اخبار سرکولیٹ کرنے کا ذمہ دارہو لیکن یہ اخبار شائع کرتا ہے ، یہ تمام اسٹیشن صرف پیشانی ( لوح ) پر لکھے جاتے ہیں اور ان صوبوںسے سرکاری اشتہارات حاصل کیے جاتے ہیں اورجو کمبائینڈ اشتہارہوتا ہے اس کی خواہ مخواہ میں قیمت بڑھ جاتی ہے ۔ شرمناک ورکنگ کنڈیشنز کے ساتھ ساتھ المیہ یہ بھی ہے کہ چند ایک کے ماسوا کئی اداروں میں تنخواہ بروقت نہیں ، دوتین ماہ تنخواہ ادا نہ کرنا ایک طرح کا معمول بن چکا ہے لیکن کارکنوں کے حقوق کی نمائندگی کی دعویدار تنظیمیں اس معاملے پر خاموش ہیں اور کارکنان انتہائی بدحالی کا شکار ہیں ، یہ تمام وہ کارکنان ہیں جو نہ تو جھوٹی خبر دیتے ہیں اور نہ ہی اس پر یقین رکھتے ہیں بلکہ زیادہ تر کا تو جھوٹی خبر سے بلکہ خبر جنریٹ کرنے سے ہی کوئی تعلق نہیں اور ان سب کو پیکا سے ڈرایا جارہاہے اور استحصال کیا جارہا ہے ،پیکاپر تحفظات اپنی جگہ جو اس قانون کی منفی اور امتیازی استعمال سے متعلق ہیں لیکن اس پر شورو غل وہ کررہے ہیں جن کا کام خبر جنریٹ کرنا ہے ہی نہیں ۔ جھوٹی خبر بنیادی طور پر مخصوص مقاصد کیلئے گھڑی جاتی ہے ۔ یہ مفادات فرد ، افراد ، جماعت اداروں اور گروہوں کے بھی ہوسکتے ہیں ، رپورٹر ان کا زمہ دار نہیں ہوتا ، فیک نیوز یا جھوٹی خبر پر سخت کارروائی سے نقصان صرف ایک خاص طبقے کا ہے جو اس پر واویلا کررہا ہے یہ وہ طبقہ ہے جس کی پراڈکٹ اور مارکیٹنگ کاانحصار ہی اس پر ہے۔ واویلا کرنے والومیںننانوے اعشاریہ نو نو فیصد تو وہ ہیں جو کبھی رپورٹر رہے ہی نہیں، دوسرا نقصان ان لوگوں کو ہے جو اداروں میں رپورٹنگ کے بجائے مخصوص کاموں کے لئے رپورٹرز کی ا سٹرینتھ پر رکھے جاتے ہیں اور حسبِ ہدایت خبر فائل کرتے ہیں جن کا راستہ جھوٹی خبر کیخلاف قانون نے روکنا ہے اور صرف درست خبر فائل کرنے والوں کا مستقبل محفوط رہ سکے گا جوموجودہ حالات میں انتہائی نظر انداز ہیں ۔ جنہیں فیک نیوز نے ہی مارا ہے اور فیک نیوز کا قلع قمع ہی ان کا وقار بحال کرے گا ۔ یہ بات نجانے اس قانون کی کلی طورپر مخالفت کرنے میں شامل رپورٹرز حضرات کیوں نہیں سمجھتے ؟ اس قانون کی مخالفت اس کے کچھ جزیات پر تحفظات کی صورت میں ہوسکتی ہے اور اس کا متبادل حل اکیڈیمک بحث سے نکالا جاسکتا ہے جس میں صرف رپورٹرز ، فوٹو گرافرز اور ایڈیٹرز شامل ہوں ۔(محمد نواز طاہر)۔۔