تحریر: خرم علی عمران۔۔
ان دی لائن آف فائر جنرل پرویز مشرف صاحب کی مشہور اور خاصی متنازعہ کتاب ہے جوبنیادی طور پر انگریزی میں لکھی گئی جس کا ترجمہ اردو میں ‘بارود کی زد پر’ یا ‘بارود کے دہانے پر’ کے نام سے بھی کیا گیا ہے اور جس کے مختلف مندرجات آج بھی اکثر و بیشتر زیر بحث آتے رہتے ہیں اور جس میں کی گئی کئی باتیں آج بھی موضوع بحث بنتی ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ درست تھا یا غلط تھا اور اگر غلط تھا تو اس کی بجائے دوسرا ممکنہ درست فیصلہ جو بھی ہوتا وہ کیا ہوتا اور اس کے کیا اثرات ہوسکتے تھے اور امریکا کا ساتھ دے کر ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارا کتنا نقصان ہوا ؟یہ سب ایسے موضوعات ہیں جن پر مدتوں بحث ہوتی رہا کرے گی اور ظاہر ہے کہ اس سارے قصے کا مرکزی کردار ہونے کے ناطے جنرل مشرف بھی مدتوں موضوع بحث بنے رہیں گے اور ان کے دور کے فوائد و نقصانات بھی مباحث اور تجزیوں کا موضوع بنے رہیں گے لیکن یہ جو موجودہ فیصلہ آیا ہے اور سنگین غداری کیس میں جناب کوجو سزائے موت سنائی گئی ہے اس کے تناظر میں ہم اس فیصلے کو کہہ سکتے ہیں کہ ان دا لائن آف ڈیتھ ۔
جنرل مشرف بلاشبہ پاکستانی تاریخ کے ایک متنازعہ اور دلچسپ کردار کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔انکے دور کے بہت سے اقدامات میں سے چند اہم ترین اقدامات میں،منتخب وزیر اعظم کو معزول کرنا، محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیرخان کی بے تو قیری، ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی امریکا حوالگی کا معاملہ ، نواب اکبر بگٹی کا قتل یا موت، دوبار ایمرجنسی نافذ کرنا، جسٹس افتخار چوہدری کے معاملے میں وکلاء تحریک کی ہنگامہ خیزیاں، کراچی اور بارہ مئی اور سب سے بڑھ کر بدنام زمانہ این آر او وغیرہ شامل ہیں۔ اب ان کے بارے میں آنے والے اس حالیہ فیصلے کی قانونی باریکیاں تو قانونی ماہرین کی درست طور پر بیان کرسکتے ہیں لیکن عوامی طور پر اس ہنگامہ خیز فیصلے کے بارے میں عوامی تاثرات بڑے متنوع ہیں اور حیرت انگیز طور پر فوج نے بھی اس فیصلے پر خاصہ سخت رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کیس میں قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے اور یہ ایک متنازعہ فیصلہ ہے ۔اب قانون کے مطابق اس کی اپیل سپریم کورٹ میں کی جائیگی اور پھر وہاں سے حتمی فیصلہ آئے گا۔ تو اس بارے میں سامنے آنے والے چند نقطہ ہائے نظر کچھ یوں ہیں ۔
موجودہ حکومت کے ناقدین پر مشتمل ایک طبقے کا کہنا ہے کہ اس فیصلے میں جان بوجھ کر قانونی سقم اور ابہام رکھے گئے ہیں تاکہ سپریم کورٹ سے اپیل میں جنرل مشرف کو اس فیصلے میں موجود قانونی کمزروریوں کی مدد سے ریلیف مل جائے اور یہ معاملہ حتمی طور پرجنرل صاحب کے حق میں ایک طرف ہوجائے۔ یہ سب حکومت کا کھیل ہے اور اس فیصلے پر کیا جانے والا شور شرابا دراصل طے شدہ ہے۔
ایک اور طبقہ یہ رائے دیتا نظر آتا ہے کہ عدلیہ نے اپنی خودمختاری اور طاقت کا مظاہرہ کیا ہے اور اس فیصلے کے ذریعے سے قانون کی بالا دستی کو ثابت کیا گیا ہے۔ جنرل مشرف کی بیماری کی وجہ سے مقدمے میں عدم حاضری سے قطع نظر انہیں تمام تر مواقع اپنے دفاع کے لئے مہیا کئے گئے لیکن انہوں نے اس سارے کیس کو بہت ہلکا لے لیا اور عدلیہ کو قرار واقعی اہمیت نہیں دی جس کا یہ خمیازہ انہیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
کچھ لوگ یہ دور کی کوڑی لائے ہیں کہ جناب اس موقع پر ایسے ہنگامہ خیز فیصلے کا سامنے آنا اور دیا جانا دراصل وکلاء کے حالیہ پی ای سی کے واقعات سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے اور میڈیا کو اس واقعے سے بڑا مدعا برائے گفتگو اور ریٹنگ دے دیا گیا ہے اور اب وہ سارا معاملہ جو لاہور میں وکلاء اور ڈاکٹروں کے درمیان پیش آیا اور تین قیمتی انسانی جانیں بھی ضائع ہوئیں اوربہت سے بے گناہ شدید اذیت سے گزرے،اب وہ واقعہ اپنا اثر کھودے گا اور سب کی توجہ اس نئی دھماکہ خیز خبر پر لگادی گئی ہے حالانکہ اس سارے غبارے کی ہوا سپریم کورٹ میں جاکرنکل جائے گی اور معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہوجائے گا۔
کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جنرل مشرف کا دور ان کے بعد آنے والے سیاسی ادوار اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے ادوار کو دیکھ کر ایک سنہرا دور محسوس ہوتا ہے کہ مہنگائی کنٹرول میں تھی،آئی ایم ایف سے نجات حاصل کرلی گئی تھی اور مشرف صاحب کے دور کے ایک مشہور وزیر جو اب بھی وزیر ہیں فرما رہے تھے کہ آپ پرویز مشرف کو جو چاہے کہتے رہیں لیکن ان کی ذات کے حوالے سےکسی ایک بدعنوانی یا مالیاتی بد معاملگی کی نشان دہی نہیں کر سکتے۔
کچھ لوگ جنرل مشرف کی حمایت میں یہ دلیل بھی دے رہے ہیں کہ سیاسی اشرافیہ کے طبقے کے افراد کو توبیماری کے نام پر سب سہولتیں،ضمانتیں حتی کہ ملک سے باہر جانے تک کی اجازت مل رہی ہے لیکن جنرل مشرف جو واقعی شدید بیماری میں مبتلا اور علیل ہیں ان کی بیماری کا خیال کئے بغیر اتنے سنگین الزام میں اتنی کڑی سزا سنادی گئی ہے کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟ کچھ افلاطون تو بڑی ہی دور کی کوڑی لائے ہیں اور کہہ رہے ہیں بلکہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ جب بھارت میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں تب اسی وقت یہ فیصلہ آیا ہے اور شایدخوامخواہ ہی ان دور از کار باتوں کو آپس میں جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔سوشل میڈیا پر بھی ہر طبقہء فکر کے لوگ اس معاملے اور فیصلے پر اپنی اپنی آراء کا کھلا اظہار کررہے ہیں اور کیونکہ میڈیا کی یہ قسم ہر طرح کے چیک اینڈ بیلنس سے ذرا آزاد آزاد سی ہے اس لئے بعض تبصرے چاہے جنرل صاحب کی حمایت میں ہوں یا مخالفت میں دل آزاری اور بد تہذیبی کی حدود کو چھوتے نظر آ رہے ہیں۔ اب یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا حتمی فیصلہ جب ہوگا کہ جب یہ کیس سپریم کورٹ میں اپیل میں جانے پر سنا اور طے کیا جائے گا۔ تو چلیں پھر؎ دیکھیں کیا گرزے گی قطرے پہ گہر ہونے تک۔(خرم علی عمران)۔۔
(خرم علی عمران کی تحریر سے عمران جونیئرڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔