تحریر: سید بدرسعید
رئوف کلاسرا صاحب نے اپنے کالم میں انگلش صحافت سے اچھے صحافیوں کے چلے جانے کا مرثیہ لکھا ہے ۔ میں نے اس اینگل سے پہلی بار فریم کو دیکھا ہے ۔ میرا تعلق اردو صحافت سے زیادہ رہا اور مجھے ہمیشہ یہی سوچ مار دیتی تھی کہ اچھا تحقیقاتی صحافی بننے کے لئے انگلش صحافت کا پھیرا لگا کر آنا ضروری ہے ۔ ہماری اردو صحافت میں مجھے جتنے بڑے تحقیقاتی صحافی نظر آئے وہ انگلش جرنلزم سے یہاں آئے اور عوام میں ان کو شہرت اردو میڈیا میں آنے کے بعد ملی ۔ یہ بھی عجیب تفریق ہے ۔ آپ اعلی بیوروکریسی ، جوڈیشری ، سفارت کارروں کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انگلش میڈیا میں جائیں ، پ عوامی مقبولیت پانا چاہتے ہیں تو اردو صحافت میں آ جائیں ۔ بہرحال میں نے بہت پہلے تحقیقاتی صحافیوں کی ایک لسٹ تیار کی تھی ۔ میں ان کے تجزیوں ، رپورٹنگ اور کالمز سے متاثر تھا ۔ مجھے معلوم ہوا کہ ایک آدھ کے سوا سب کی تربیت انگلش جرنلزم نے کی تھی ۔ رئوف کلاسرا ، عامر متین ، انصار عباسی ، شاہین صبہائی سمیت ایک طویل فہرست تھی ۔ مجھے اسد اللہ غالب کے کالم متاثر نہیں کرتے حالانکہ ان کے بیٹے عمار چودھری کے ساتھ میں نے دنیا ایڈیٹوریل میں مزدوری کی تھی لیکن مجھے اسد اللہ غالب نے اس وقت بہت متاثر کیا تھا جب میں نے ان کی جوانی کے تحقیقاتی فیچرز پڑھے ۔ذوالفقار کی جانب سے اغوا کئے جانے والے جہاز پر ان کی فیچر سٹوری لاجواب تھی ۔ میں نے اسے بار بار پڑھا اور صحافتی باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کی ۔میری رائے میں اسد اللہ غالب فیلڈ ورک کے حوالے سے وہ بہت بڑے صحافی ہیں۔ بہرحال میں نے کئی بار منصوبہ بنایا کہ اب ایک دو سال انگلش میڈیا میں کام کیا جائے ۔ ایک دو بار تو راجہ ریاض صاحب سے بھی کہا کہ سر جی کسی انگلش اخبار میں میرا سٹول لگوا دیں، بس انگلش مزید بہتر کرنے کے لئے چار ماہ کا وقت دے دیں ، وہ ہر بار یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ کل ہی آ جائو ، انگلش تو ادارے میں بیٹھ کر خود ہی بہتر ہو جائے گی ۔ جیو کے علوی مرحوم سینہ ٹھوک کر کہا کرتے تھے ، شاہ جی 300 لفظ کو رٹا لگا لو انگلش خبر میں مار نہیں کھائو گے ، ایڈیٹوریل اور کالمز کے لئے وکیبلری چاہئے لیکن خبر انہی 300 الفاظ کے اندر چلتی ہے ، چلو ایک ہفتے میں رٹا لگا کر آو اور انگلش رپورٹنگ کرو ۔ میں ڈر جاتا تھا کہ علوی صاحب پھنسا رہے ہیں اور بعد میں میری کٹ لگایا کریں گے کہ تین سو لفظ سیکھ کر خود کو انگلش رپورٹر سمجھنے لگ گیا تھا ۔ مجھے لگتا ہے کہ انگلش جرنلزم آپ کی سوچ اور معلومات کے ذرائع کو مزید وسعت دیتی ہے ۔ عین ممکن ہے میں غلط ہوں لیکن مجھے اردو صحافت کی نسبت انگلش صحافت میں تحقیقات کا عنصر زیادہ نظر آیا ۔ آج روف کلاسرا صاحب کا کالم پڑھا تو معلوم ہوا کہ وہاں بھی حالات اچھے نہیں ہے ۔ انگلش صحافت بھی شاید اردو کی طرح بیانیہ صحافت تک محدود ہو رہی ہے اور اچھے تجزیہ اور سٹوریز دینے والے صحافی اردو جرنلزم کی طرف رخ کر رہے ہیں ۔ رئوف کلاسرا نے انگلش صحافت کا مرثیہ لکھا ہے ، کم از کم مجھے یہ کالم مرثیہ ہی لگا ہے ۔ وہ جانے والوں کو رو رہے ہیں ۔ اب میں انہیں کیسے بتائوں کہ اگر انگلش جرنلزم سے آنے والوں کو واپس بھیج دیا جائے تو اردو صحافت کی کٹیا بھی ویران لگنے لگے گی ۔ ہم اردو صحافت کا مرثیہ بھی نہیں لکھ سکتے ۔ کاش رئوف کلاسرا صاحب ہم ایسوں کو یہ بھی بتا دیں کہ ہم طالب علموں کو اب جائے پناہ کہاں ملے گی ؟ بیانیہ صحافت سے ہم خود تنگ ہیں ، تحقیقاتی صحافت کی گنجائش ختم ہوئی جاتی ہے ۔ ایک اشتہار ہماری خبر اتار کر باسکٹ میں پھینکنے کی طاقت رکھتا ہے ۔ سر! یا تو کسی دن بیٹھ کر ایک لسٹ بنا لیتے ہیں کہ کون کون اشتہار دینے یا دباو ڈالنے کی اہلیت رکھتا ہے ، کس کس کے خلاف کوئی سٹوری نہیں دینی لیکن ڈر یہ ہے کہ پھر غریبوں کے سوا کوئی بچے گا نہیں جس کے خلاف کوئی سکینڈل بریک کر سکیں ۔ انگلش جرنلزم کے ایڈیٹرز شاید اب بھی دباو ہینڈل کر لیتے ہیں لیکن اردو صحافت کی کمر پچک چکی ہے ۔ میں نے ایڈیٹوریل کی مزدوری کے دوران وہ نام اور جملے بھی کاٹے ہیں جن کو میں ذاتی حیثیت میں چھاپنے کے حق میں تھا لیکن کالم کو ٹھنڈا کرنا پالیسی کا حصہ تھا۔ یہ گناہ مجھے آج تک بے چین رکھتا ہے کہ تحقیقاتی صحافی کے جانے کتنے سکینڈلز ہمارے اداروں کی پالیسیز کی وجہ سے ٹھنڈے ہو کر سامنے آتے ہیں اور صحافی کی محنت رائیگاں جاتی ہے (سید بدر سعید)