سینئر صحافی اور کالم نگار ایاز امیر نے دنیانیوزمیں اپنے تازہ کالم میں کہا ہے کہ ۔۔اڈیالہ کے قیدی نے تو فی الوقت وہیں رہنا ہے ‘ رہائی تو دور کی بات ہے عنقریب ضمانت کی بھی کوئی توقع نہیں۔نہ جلسے ہوں گے نہ جلوس نہ اُن کا کوئی خطاب۔یہی صورتحال ہے توپھر ڈر کاہے کا‘وسوسے کیسے؟ سوال تو یہ ہے کہ جس دلدل میں قوم پھنسی ہوئی ہے اُس سے نکلنا ہے یا نہیں؟ اور نکلنے کا واحد راستہ انتخابات کا ہے۔ کوئی اور راستہ ہے تو بتا دیجئے‘ ہماری بھی تعلیمِ بالغاں ہو جائے گی‘ سمجھ میں کچھ اضافہ ہو گا۔ انتخابات میں یہ تاخیر کی باتیں بزدلانہ کارروائی ہے۔تاخیر تب ہی ہو سکتی ہے جب آئین کا حلیہ بگاڑا جائے۔ دستورِ پاکستان سے زیادتیاں ہوتی آئی ہیں‘ مزید زیادتی کا متحمل ہمارا آئین ہوسکتا ہے؟انہوں نے مزید لکھا کہ انتخابات کے انعقاد سے زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ کچھ سیٹیں ادھر اُدھر ہو جائیں گی ‘ (ن) لیگ کے مصنوعی غبارے سے کچھ ہوا نکل جائے گی۔ تو پھر کیا ؟ زمین اور آسمان تو قائم رہیں گے‘ اندھیری شب میں ستارے جگمگاتے رہیں گے۔کیا ہماری یہی قسمت ہے کہ ہم بحرانوں میں پھنسے رہیں؟ ہماری قومی پہچان ہمارے کشکول سے کچھ الگ بھی ہونی چاہئے۔ ہم سے جو بعد میں ملک آزاد ہوئے وہ کہاں پہنچ چکے ہیں‘ ہمیں کیا بیماری لاحق ہوئی کہ ہم اتنے پیچھے رہ گئے ہیں؟ناقص فیصلوں سے ہی اس قوم کا بیڑہ غرق ہوا ہے۔ انتخابات تو ایک چھوٹی سی منزل ہے‘ راستہ ہمارا لمبا ہے‘ قومی سفر نئی توانائیوں سے جاری رہے گا۔چھہتر سال ضائع کئے تو کیا ہوا؟ ہماری تاریخ ختم تو نہیں ہوئی‘ ابھی تو ایک لحاظ سے اُس کی ابتدا ہے۔ شکست و ریخت پیچھے کی باتیں ہونی چاہئیں‘ آگے کی طرف تو ہم نے نئے عزم سے چلنا ہے۔ حالات کو بہتر طریقے سے چلانا ہے‘ حکمرانی کا معیار بہتر کرنا ہے۔سیاسی لیڈر جو بھی ہوں اُنہیں اب آگے کی طرف دیکھنا چاہئے۔ بہت ہو چکیں کمزورپالیسیاں‘ انہی سے تو ہمارا بیڑہ غرق ہوا ہے۔یہ ملک بربادی کیلئے تو نہیں بنا تھا۔