تحریر:خرم شہزاد
دنیا نیوز میڈیا انڈسٹری میں آج ایک معتبر نام ہے اور اس کے پروگرامز خاص و عام بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔ ایسے ہی پروگراموں میں ایک مذاق رات ہے جسے واسع چوہدری بہت خوبصورت انداز میں لے کر چل رہے ہیں۔ آج کے ناظرکوشائد یاد ہو کہ کبھی اس پروگرام کا میزبان نعمان اعجاز بھی تھا اور کبھی اس پروگرام کا فارمیٹ آج سے بہت حد تک مختلف ہوتا تھا۔ مہمان کی قسمت اور ستاروں کا حال بتانے کے ساتھ ساتھ نئے ابھرتے ہوئے فنکاروں اور کوشش کرتے باہنر نوجوانوں کو بھی اس پروگرام میں اپنا آپ دیکھانے کا موقع ملتا تھا۔ کبھی اس پروگرام میں تحائف، چیک اور موٹر سائیکل بھی بانٹے جاتے تھے لیکن یہ سب اس دور کی بات ہے جب دنیا نیوز ابھی پاوں پاوں چلنے کی کوشش میں تھا اور مذاق رات اپنا وجود منوانے اور برقرار رکھنے کی جدوجہد میں تھا۔ افتخار ٹھاکر اور امان اللہ جیسے بڑے فنکار اس پروگرام کا حصہ بنے اور پھر قیصر پیا بھی اس ٹیم کا حصہ ہوئے ، واسع چوہدری، آئمہ بیگ اور محسن عباس حیدر کے ساتھ برسوں چلنے والے اس پروگرام کے لوگ عادی ہوگئے ۔ کبھی امان صاحب بیرون ملک جاتے یا پھر ان کی طبیعت ناساز ہوتی تو باقی سب کی موجودگی میں بھی پروگرام میں کوئی ایک نامعلوم سی کمی محسوس ہوتی تھی۔ آئمہ بیگ کا پورے پروگرام میں صرف ایک سیگمنٹ ہوتا تھا لیکن اس کے چھوڑنے کو بھی بری طرح محسوس کیا گیا لیکن ان تمام تبدیلیوں کو ناظرین نے زیادہ دل پر نہ لیا کیونکہ کہیں نہ کہیں یہ قدرت کے فیصلوں اور وقت کے تقاضوں کو نبھانے والی بات تھی۔ آئمہ بیگ کے لیے دعا کی گئی کہ وہ مزید کامیابیاں سمیٹے اور انہوں نے بعد میں بھی کئی مواقع پر پروگرام کا حصہ بن کر بتایا کہ وہ اگلی منزلوں کی طرف ضرور بڑھ گئی ہیں لیکن یہ پروگرام ان کی پہلی پہچان ہے۔ افسوس آج اس بات کا ہے کہ اس پروگرام کی پہچان ڈی جے محسن عباس حیدر کے ساتھ دنیا نیوز کا حد سے زیادہ برا سلوک اور اس سے پروگرام کی پہچان چھیننے کی کوشش نے دل کو کھٹا نہیں کیا بلکہ برا کر دیا۔ دراصل یہ کہنا بجا ہو گا کہ ناظرین پوری ٹیم کے عادی ہو گئے تھے اور بلاشبہ اب بھی اس پروگرام کے عادی ہیں، لیکن کسی بھی فنکار کی اس کے پروگرام کے علاوہ بھی ایک زندگی ہوتی ہے جس میں ہزار طرح کے مسئلے مسائل ہوتے ہیں جن کا ان کی فنکارانہ زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا یا کم از کم میڈیا چینلز کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔
محسن کے گھر میں ایک مسئلہ ہوا جو کہ خالص ان کا گھریلو مسئلہ تھاجس میں نہ کسی ناظر کو مداخلت کا حق ہے اور نہ ہی میڈیا کو ملوث ہونے کی ضرورت تھی۔ محسن نے پریس کانفرنس میں اپنی بے گناہی پر بات کی اور پھر کیس عدالت میں چلا گیا جس کا فوری فیصلہ بھی آ گیا لیکن دنیا نیوز کی ٹیم نے محسن کو اپنے پروگرام سے الگ کر دیا ۔ افسوس ناک بات یہ کہ نہ صرف الگ کیا بلکہ بہت سے پروگراموں کے پہلے اور درمیان میں بھی ضروری اطلاع دینا اپنا فرض سمجھا جس کی قطعی کوئی ضرورت نہ تھی بلکہ میں تو ذاتی حیثیت میں اسے محسن کو بدنام کرنے کا ایک طریقہ کہوں گا۔ محسن کو الگ کرنے کی وجہ صرف یہ بتائی گئی کہ عوامی جذبات کا احترام کرتے ہوئے محسن کو الگ کیا گیا ہے اور جب تک محسن اپنی بے گناہی ثابت نہیں کر دیتے وہ ٹیم مذاق رات کا حصہ نہیں ہوں گے۔ کیس کا فیصلہ ہو چکا ہے لیکن محسن پروگرام میں واپس نہیں آیا۔یہ سب میڈیا سکرین کا ایک پہلو ہے اب اس کے دوسرے پہلو کو بھی دیکھتے ہیں۔
ایک مفتی صاحب میڈیا کے پروگرام میں ارشاد فرماتے ہیں کہ عمران خان پیشاب سے وضو کرتا ہے۔ کیا کسی کو بتانے کی ضرورت ہے کہ جس عمران خان کے بارے بات کی جا رہی ہے وہ کون ہے اور آج اس کی اس ملک میں کیا حیثیت ہے؟ سوال تو صرف یہ ہے کہ جس میڈیا میں ایک شخص ملک کے سربراہ پر ایسے گندے الزامات لگائے ، اور الزامات بھی وہ کہ سننے، دیکھنے، پوچھنے اور بولنے والے، سب کو یقین ہو کہ بکواس کی جا رہی ہے لیکن اس شخص کو نہ صرف ہر دوسرے روز پروگراموں میں بلایا جاتا ہے بلکہ وہی کلپ انہی میڈیا ہاوسز کے ویب سائٹس پر موجود بھی ہو تو وہاں عوامی جذبات میں ایک ڈی جے کو نکالنے پر کیا سمجھا جائے۔ کیا کسی چینل نے یا صرف دنیا نیوز کی ہی بات کی جائے کہ انہوں نے مفتی صاحب کو اپنے چینل پر بلاک کرنے جیسا کوئی عندیہ دیا؟ کیا یہاں عوامی جذبات مجروع نہیں ہوئے تھے اور کیا ملک کی شناخت داغدار نہیں ہوئی؟ کیا بیرون ملک موجود پاکستانیوں کو ایسے بیانات کے بعد شرمسار نہیں ہونا پڑا تھا؟ نہیں ۔۔۔ کیونکہ ان کی اس طرح کی باتوں سے تو پروگراموں کی ریٹنگ بنتی ہے، اینکروں کو خصوصی ہدایات ملتی ہیں کہ ابھارو انہیں اور کچھ کہلواو تاکہ پروگرام توجہ حاصل کریں۔ نیب کے کیسز میں مطلوب ملزمان ہر وقت انہی میڈیا چینلز پر موجود ہوتے ہیں اور دوسروں پر الزامات لگا رہے ہوتے ہیں۔ انہی سیاست دانوں پر درجنوں کیس عدالتوں میں زیر التوا ہوتے ہیں اور یہی سب نہ صرف اسمبلیوں کا حصہ ہوتے ہیں بلکہ عوامی جذبات کے ترجمان میڈیا چینلز پر بھی پھیل پر بیٹھے ہوتے ہیں اور شام کا شائد ہی کوئی پروگرام ہو جس میں یہ اپنے نادر فرمان جاری نہ کرتے ہوں۔ اگر آ پ ذاتیات کی بات بھی کریں تو پارلیمنٹ سے بازار حسن تک جیسی کئی کتابیں ہمارے سیاست دانوں کا کچا چھٹا بیان کرنے کو موجود ہیں، آپ بھلے کاکے منے بنیں کہ ہمیں کیا پتہ کہ فلاں سیاست دان اپنی ذاتی زندگی میں کیسا ہے لیکن بازار میں موجود کتابیں بہت کچھ کہتی ہیں ، تو بتائیے کہ کس سیاست دان کو ان کی گھریلو زندگی اور سیاست سے ہٹ کر بالکل غیر نصابی سرگرمیوں کی وجہ سے کسی چینل نے عمومی طور پر اور دنیا نیوز نے خصوصی طور پر بلاک کیا ہو؟ کیا وہاں اخلاقیات اور عوامی جذبات تیل لینے چلے جاتے ہیں؟
سوال صرف اتنا ہے کہ محسن کے گھریلو مسئلے کو بنیاد بنا کر اسے پروگرام سے الگ کر کے اخلاقیات کا درس دینے اور عوامی جذبات کی ترجمانی کرنے والے چینل جب دوسرے ہر معاملے میں اتنا اعلی اخلاقی معیار قائم نہ رکھ پا رہے ہوں تو کیا انہیں محسن کو بھی معاف نہیں کر دینا چاہیے؟ دنیا نیوز کو اس بارے سوچنا چاہیے اور محسن کی واپسی پروگرام میں گہنائے ایک چاند کو دوبارہ سے چمک دمک دے سکے گی اس لیے محسن کو واپس بلائیں کیونکہ ہم اسی کے ساتھ اور انداز کے عادی ہیں۔(خرم شہزاد)۔۔