ایک شائع شدہ تائیدی تحریر کا جائزہ
تحریر: سید عارف مصطفیٰ۔۔
اس تحریر میں لکھاری نے ڈی جے محسن عباس کے معاملے میں جس شد و مد سے انکی بیجا طرفداری کی ہے اس سے تو یوں لگ رہا ہے کہ یہ فرمائشی تحریر ہے بلکہ جیسے خود محسن عباس نے لکھی ہے کیونکہ اس میں بڑی سفاکی سے اس اہم سماجی مسئلے کو بڑی بے رحمی سے نظرانداز کردیا گیا ہے کہ جو کسی ازدواجی رشتے کے ٹوٹنے اور کسی گھر کے بگڑنے سے جنم لیتا ہے اور کم ازکم کوئی عورت جو خواہ کسی شعبے کی بھی ہو اس بابت ایسی غافل اور لاپرواہ ہو کہ از خود اپنا گھر بگاڑنا چاہے گی اور بغیر کسی حقیقی مسئلے کے اور بے سبب ہی اپنا مسئلہ عدالت کے دوارے بھی لے جانا چاہے گی جبکہ اسکا ایک بچہ بھی ہو جس پہ کہ اس سارے معاملے کا نہایت برا نفسیاتی اثر بھی پڑسکتا ہو ایسا اثر کہ جو اسکی شخصیت ہی کو توڑپھوڑ ڈالے
اوراس ڈی جے کو اس سارے قضیئے سے سوائے بدنامی اور رسوائی کے ، اور کیا ہاتھ آیا کیونکہ ایک طرف تو اس معاملے میں شو بزنس کے کئی معروف لوگوں نے فاطمہ کے ساتھ محسن کی بدسلوکی کی گواہی پہ مبنی بیانات دیئے تو دوسری طرف محسن کو عدالت میں بھی منہ کی کھانی پڑی کیونکہ عدالت نے بھی ڈی جے محسن کی سابق اہلیہ فاطمہ کو اسکی منشاء کے مطابق اس کے نکاح کی تنسیخ کا حق دیدیا وگرنہ عدالت قرار دیدیتی کہ فاطمہ کے الزامات بے بنیاد ہیں جبکہ اسی ویب سائٹ پہ اس لنک کے تحت چند ماہ قبل 30 اگست 2019 کو شائع شدہ نیوز رپورٹ میں یوں شائع ہوا تھا کہ
” لاہور کے ایڈیشنل سیشن جج لاہور عظیم شیخ نے اداکار محسن عباس حیدر کے خلاف ان کی اہلیہ فاطمہ سہیل کی جانب سے دھمکیاں دینے اور امانت میں خیانت کرنے کی درخواست پر سماعت کی۔عدالت کے روبرو تھانہ ڈیفنس سی پولیس کے تفتیشی افسر نے مکمل پولیس رپورٹ پیش کی۔ جس میں محسن عباس کو اپنی بیوی فاطمہ سہیل کو دھمکیاں دینے کی دفعات میں قصور وار ٹھہرایا گیا جبکہ بیوی پر پستول تاننے اور امانت میں خیانت کی دفعات کو پولیس نے خارج کردیا۔تفتیشی افسر کی رپورٹ کے بعد اداکار محسن عباس کے وکیل نے دھمکیاں دینے کی دفعات میں عبوری درخواست ضمانت واپس لینے کی استدعا کی اور عدالت کو بتایا کہ یہ معمولی جرم ہے جس میں عبوری درخواست ضمانت کی ضرورت نہیں۔ عدالت نے محسن عباس کے وکیل کی استدعا کو منظور کرتے ہوئے درخواست ضمانت نمٹا دی۔ “
یعنی پولیس افسر نے بھی اپنی رپورٹ میں فاطمہ سہیل کے بیان میں دھمکیاں دینے کی حد تک انکے بیان کی تائید کی تھی کیونکہ وہ کئی بار دی گئی تھیں اور متعدد لوگ اس بابت بیانات بھی دے چکے تھے تاہم چونکہ پستول تاننے کے مبینہ واقعے کے وقت کوئی گواہ موقع پہ موجود نہ تھا اس لیئے اس بابت محسن کو شک کا فائدہ دے کر بیان کا یہ حصہ حذف کردیا گیا تھا – اسکے علاوہ نجانے کیوں پراسرار طور پہ اس ماڈل نے بھی فاطمہ کے خلاف کوئی مقدمہ کیوں نہیں کیا کہ جس سے ‘خصوصی تعلقات’ کی بابت فاطمہ نے الزام لگایا تھا جو کہ نہایت سنگین تھا اور یقیننا اس لائق تھا کہ اگر محسن کی سابق اہلیہ جھوٹی تھی تو اسے عدالت کے کٹہرے میں کھینچ کے جھوٹے سنگین الزام پہ قرار واقعی سزا دلوائی جاتی ۔۔۔ مگر اتنے بڑے الزام کو چپ چاپ کیوںپی لیا گیا اور کیا اسکے جواب میں اسے فاطمہ کی جانب سے بات کو ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کی حد تک لے جاسکنے کا دھڑکا تو نہ تھا
اب جہانتک دنیا نیوز کی جانب سے اپنے ڈی جے محسن عباس کے خلاف کارروائی کا تعلق ہے تو وہ بجاطور پہ ایک نہایت درست اور بروقت کارروائی تھی اور اس سے یہ چینل کسی بڑی بدنامی سے بال بال بچ گیا کیونکہ پاکستانی سماج میں ایسے کرداروں سے سخت نفرت کی جاتی ہے کہ جو شادی کے بعد بھی اپنی منہ زوریاں اور منہ ماریاں جاری رکھتے ہیں اور چینل کے اس عمل سے اسکی بابت لوگوں میں بڑا خوشگوار تاثر قائم ہوا- ایک بات اور جو میں سمجھنے سے قاصر ہوں وہ یہ ہے کہ محسن کے لیئے لکھی گئی زیر تبصرہ تائیدی و توصیفی تحریر میں کسی اور کے کسی مبینہ برے عمل کا جو حوالہ دیا گیا ہے وہ کسی اور کے برے عمل کے حق میں کوئی مضبوط دلیل آخر کیونکر بن سکتا ہے چند محسن نے کسی بھی مرحلے پہ نا تو شرمندگی کا اظہار کیا اور نہ ہی اپنے شرمناک رویئے اور طرز عمل پہ معافی مانگی اور اسی وجہ سے وہ اب لوگوں کے ذہنوں میں ایک برے حوالے کے طور پہ نقش ہو چکا ہے اور اسی لیئے اس قدر وقت گزر جانے کے بعد بھی کبھی کسی اخبار یا رسالے میں اسکے لیئے کسی جانب سے اسکی بحالی کے لیئے کبھی کوئی آواز بلند ہوتے نہیں دیکھی اور اسکے بعد بھی کسی چینل نے محسن کو اس لیئے منہ نہیں لگایا کیونکہ وہ اب محسن کے لیئے عوامی جذبات سے بخوبی واقف ہیں اور چونکہ وہ کمرشیل ادارے ہیں کہ جہاں عوامی پسندیدگی ہی انکے ہر اقدام اور فیصلے کی بنیاد بنتی ہے تو پھر وہ بھلا کیوں چیونٹیوں بھرے اس کباب کو اپنے منہ میں رکھنا چاہیں گے ۔۔؟(سید عارف مصطفی)