de maghees or anchor person ki yaadein

ڈاکٹر مغیث اور اینکرپرسن کی یادیں۔۔

تحریر: اجمل جامی۔۔

معمول کے مطابق پروگرام کرنے والی ریڈیو ہوسٹ اچانک ”کیو شیٹ“ سے راہ فرار اختیار کر گئیں تو اس روز رات گئے پرانے نغموں پر مبنی گیت مالا کی میزبانی دو گھنٹوں تک ہمیں نبھانا پڑ گئی۔شیو کمار بٹالوی، فراز، جون ایلیا اور آخر میں عباس تابش کے کلام کا سہارا لیتے لیتے پروگرام کھڑکا دیا، واپسی پر تینتس نمبری تو دستیاب نہیں تھی سو لفٹ لینا پڑی، پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس ہاسٹل نمبر سترہ پہنچے تو کمرہ نمبر ایک سو تینتیس کا دروازہ کھلا پایا، نوکیا گیارہ سو کی ٹارچ آن کی تاکہ آرام فرمانے والوں کی شناخت ہو سکے، کیا دیکھتے ہیں کہ ”کیوبیکل روم“ میں جہاں بمشکل دو سے تین افراد ہی سونے کے لئے جگہ بنا سکتے ہیں آٹھ مشٹنڈے خراٹے مارتے سو رہے ہیں، خدا گواہ ہے کہ ان میں سے ہم صرف دو کو ہی جانتے تھے، باقی چھ سرے سے نامعلوم اور خانہ بدوش معلوم ہوتے تھے۔

روزنامہ پاکستان میں ا جمل جامی نے لکھا کہ غالباً مئی کا مہینہ تھا، ہوا کی آمد ورفت اور ساتویں آٹھویں فرد کی ٹانگیں دراز کرنیکے لئے دروازہ کھولے رکھنا مہمان گرامی کے لئے ضروری تھا، آس پاس تانک جھانک کی تو معلوم ہوا سبھی پردیسی سو چکے ہیں۔ دو چار افراد کو گھسیٹ کر کونے لگایا اور دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر ہم بھی اپنے بیگ کے سہارے تقریباً لیٹ گئے۔ فجر سے کچھ دیر پہلے مصطفی بھائی (ہوسٹل کلرک) اور عملے کے دیگر افراد وارڈن صاحب کی سربراہی میں چھاپے پر آن نکلے۔ اسی اثنا میں مصطفی بھائی پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے کان میں کہہ چکے تھے کہ پائین! ”چھاپہ پے گیا جے۔“ مرتے کیا نہ کرتے، ہڑبڑا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔

یہاں یہ بات واضح کرنا از حد ضروری ہے کہ یہ کوئی معمولی چھاپہ نہیں تھا، یہ چئیرمین ہال کونسل، وارڈن ہاسٹل اور ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکشین اسٹیڈیز پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ صاحب کا چھاپہ تھا، اس چھاپے بارے مشہور تھا کہ اس میں غیر قانونی طور پر مقیم طالب علموں کے میزبانوں کو جرمانہ مع الاٹمنٹ کینسل کم از کم سزا تھی۔ ڈیپارٹمنٹ میں دوران لیکچر کئی روز تک پوری کلاس (کلاس بھی وہ جہاں پندرہ لڑکے اور پنتالیس لڑکیاں تھی) کے سامنے بھر پور عزت افزائی ”ویلیو ایڈڈ سروس“ تھی۔

بہر حال مغیث صاحب کو بتایا گیا کہ یہ کمرہ ماس کام کے طالبعلم جامی کی الاٹمنٹ ہے، یہ سنتے ہی مغیث صاحب مزید سیخ پا ہوئے، لائٹ آن کرنے کا کہا، ہم پہلے ہی سے ہاتھ پیچھے باندھے با ادب کھڑے تھے، باقی نا معلوم مہمان بھی اب تک جاگ چکے تھے، ڈاکٹر صاحب نے بنا کسی تمہید پہلا جملہ ہی جان لیوا کہہ ڈالا، کہا، جامی! تم سے یہ امید نہ تھی۔ تمہیں پتہ ہے اللیگل مہمانوں کو بغیر اجازت رکھنے کی سزا کیا ہے؟ ہم چپ رہے، کہنے لگے صبح جو آپ کی کلاس ہوگی اس بارے کچھ سوچا ہے؟ ہم پھر چپ رہے، ہم تھکے ہوئے تھے لہذا تسموں والے جوتوں سمیت سو رہے تھے، سر تا پا نظر دوڑانے کے بعد پھر قدرے مسکراتے ہوئے کہا، آج نائٹ شفٹ تھی؟ کہا جی،جی سر! کچھ دیر چپ رہے پھر کہنے لگے ایک معمہ تو حل کر دو! عرض کی جی سر، حکم کیجیے۔۔ کیوبیکل روم میں آٹھ سے نو افراد کیسے لیٹ سکتے ہیں؟ یہ کونسی سائنس ہے؟ مجھے ایک بار تم سب اس چھوٹی سی جگہ پر جہاں صرف ایک چھوٹا بیڈ یا دو چارپائیاں لگ سکتی ہیں، لیٹ کر دکھا دو، میں تمہیں کوئی جرمانہ نہیں کروں گا۔ ہم نے فوراً نامعلوم مہمانوں کی جانب دیکھا جو ناجانے کب سے مکتی کی دعائیں مانگ رہے تھے، ہمارا اشارہ دیکھتے ہی ان کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور سب نیا ثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا، ابھی لیجیے سر! ڈاکٹر صاحب باہر کھڑے دیکھتے رہے اور ہم سب واپس اسی پوزیشن پر بآسانی لیٹ گئے، ڈاکٹر صاحب مسکرا کر چل دئیے۔ ہم صرف یہی سن پائے کہ مصطفی لائٹ بند کر دو، تھکا ہوا آیا ہے، کچھ دیر نیند پوری کر لے، اسے کہنا صبح آفس میں مل لے۔

کچھ عرصے بعد ڈیپارٹمنٹ میں ایک حادثہ پیش آیا، ہوا کچھ یوں کہ ایک طرم خان ایک شریف زادی کے تعاقب میں، سکیورٹی گارڈز اور بڑی بڑی گاڑیوں کے ہمراہ کئی روز سے ہمارے ادارے کے لان اور کینٹین میں مٹر گشت کر رہا تھا، چند خواتین کو شدید شکایات کا سامنا کرنا پڑا، انہوں نے پوری کلاس کے سامنے مسئلہ بیان کیا، طے ہوا کہ طرم خان کی خاطر مدارت کر دی جائے، ایک روز جب موصوف نے ہاتھ چالاکی کی تو انہیں بھر پور سیوا کے ساتھ رخصت کر دیا گیا۔بات پھیل گئی، معلوم ہوا کہ طرم خان کسی بہت بڑے باپ کا بیٹا ہے، انکوائریاں لگ گئیں، پّلساں پے گیاں، وغیرہ وغیرہ۔ صبح فجر کے بعد ڈاکٹر صاحب ہاسٹل لان میں ہم سب کلاس فیلوز کیساتھ موجود تھے، ہم نے پورا واقعہ سچ سچ بیان کر دیا، توقف کے بعد کہنے لگے درخواست لکھو، یہ سب کچھ من و عن درج کرو، دستخط کرو اور آفس میں ملو، باقی میں خود سنبھال لوں گا۔ہمیں معلوم تھا کہ گورنر ہاوس اور وی سی آفس کی جانب سے ڈاکٹر صاحب پر اس بابت بہت دباو¿ تھا کہ طرم خان کی خاطر مدارت کرنے والے عناصر کو”ایکس پیل“ کیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب ڈٹ گئے اور ہمیں بتائے بغیر کئی روز تک اس طوفان کا کامیابی سے سامنا کرتے رہے۔ ایک روز پوچھا آپ نے ہماری خاطر اس قدر خطرہ کیوں مول لیا؟ کہنے لگے، وہ تو کسی بڑے باپ کا بیٹا تھا، اسے روزی روٹی کی کیا فکر، میں بھلا کیونکر تمہارا مستقبل داو پر لگاتا۔ سٹینڈ لینا مجھ پر فرض تھا کہ میرے ڈیپارٹمنٹ کے سب بچے میری اولاد ہیں۔

اسی بیچ ہمیں پرائیوٹ ریڈیو پر کام کرتے ابھی چھ ماہ سال ہی ہوا تھا کہ زلزلے کے بعد مظفر آباد میں پنجاب یونیورسٹی اور یونیسف کے تعاون سے ”زندگی پھر سے مسکرائے گی“ ریڈیو ٹرانسمیشن کا آغاز ہو گیا، وہاں مظفر آباد میں بکرا پہاڑی جو اب پی سی ہل کے نام سے مشہور ہے پر دو خیمے نصب تھے، ایک میں ریڈیو ٹرانسمیٹر اور منی اسٹوڈیو اور دوسرے میں تین سے چار افراد کے رہنے کا بندوبست۔ ایک روز ڈاکٹر صاحب نے بلایا، کہا تین ماہ کے لئے مظفر آباد جاو گے؟ عرض کی سر ابھی براڈکاسٹنگ کا زیادہ تجربہ نہیں، ہم سے نہ ہو پائے گا، کہنے لگے تم کر سکتے ہو، تمہیں اسی لئے یاد کیا ہے۔ غالباً بی ایس آنرز کا چوتھا یا پانچواں سمیسٹر تھا، چند ایک کلاسز کے بعد ہم قبلہ زاہد بلال (سربراہ شعبہ ابلاغیات اوکاڑہ یونیورسٹی) کی سربراہی میں مظفرآباد تھے، تین ماہ بعد معلوم ہوا کہ ہمیں واپس بلایا جا رہا ہے، سوچا ٹال مٹول کی جائے کہ امتحانات سے جان چھٹ جائے گی، ڈاکٹر صاحب ڈٹ گئے، واپس جانا پڑا، حاضر ہوئے تو کہنے لگے امتحان کس نے دینا تھے؟ عجب فنکارانہ معصومیت کیساتھ عرض کی کہ سر ہم تو وہاں خدمت خلق میں مصروف تھے اور توقع تھی کہ آپ امتحانی رعایت عنایت فرمائیں گے، مسکرائے اور بولے کہ تھوڑی دیر کے لئے سستی شمیم آرا بننے سے گریز کرو، بات یہ ہے کہ یہ رعایت نہیں تمہارے مستقبل کے ساتھ کھیلنے کے مترادف عمل ہے۔

اٹھو اور میک شفٹ کلاسز لو۔ ہم بوجھل قدموں کیساتھ چل دئیے کہ کمال ہے داد نہ تعریف فقط ڈسپلن ہی ڈسپلن! امتحانات کے بعد ایک تقریب کا اہتمام ہوا جہاں ریڈیو مظفر آباد میں خدمات سر انجام دینے والے طالبعلموں کو اعزازات اور نقد کیش انعامات سے نوازا گیا، ہماری باری آئی تو جناب اجمل نیازی صاحب آگے بڑھے اور کہنے لگے اجمل جامی کو انعام ہمارے ہاتھوں سے دلوائیں، ساتھ ہی انہوں نے مائیک تھاما اور کہا کہ آج اجمل نیازی کو رشک کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ کاش اجمل نیازی اجمل جامی ہوتا کہ یہ روٹھی زندگی کو چند مسکراہٹیں دے کر لوٹے ہیں۔ تقریب ختم ہوئی تو ڈاکٹر مغیث الدین مجھے کہنے لگے، یہ داد کیسی تھی؟ اور پھر خود ہی بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے، گل سن! ہر کم ویلینال ای چنگا لگدا اے۔

ڈاکٹر صاحب جا چکے، کورونا انہیں اس جہاں سے اگلے جہاں لے گیا، پروگرام ”نقطہ نظر“میں ان کی خدمات پر عاجزانہ سا ”ٹربیوٹ“ پیش کیا تو ان کے صاحبزادے علی طاہر مغیث کا فون آیا، لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ بیک گروانڈ میوزک میں ”ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم“ سننے کے بعد خوب رویا تھا۔ اچانک ماتمی لہجے میں کچھ ایسے پہلوو ں پر بات ہوئی کہ ہم دونوں تھوڑی دیر کے لئے مسکرائے بنا نہ رہ پائے۔ طے پایا کہ ڈاکٹر صاحب کی علمی کاوشوں پر بہت لکھا جا چکا، اب ان گوشوں پر لکھیں گے جنہیں ڈاکٹر صاحب کی طرح برفی کھاتے ہوئے ”چیریش“ کر سکیں۔

امید ہے علی طاہر آج بھی کچھ دیر تو ضرور مسکرائے گا۔ مسکرانے کی ایک وجہ یہ خیال بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ اگلے جہاں بھی پاک پروردگار کے حضور حاضر ی کے بعد ا?س دنیا کی ”سپائرل آف سائلنس“ تھیوری پر نقطہ چینی فرما رہے ہونگے یا پھر فارغ اوقات میں کرکٹ میچز کی جھلکیاں دیکھ کر جی بہلا رہے ہونگے۔ چین سے بیٹھنا شاید ان کی سرشت میں تھا ہی نہیں، اکثر اپنا پسندیدہ شعرقدرے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ سنایا کرتے؛

اس شرط پر کھیلوں گی پیا پیار کی بازی

جیتوں تو تجھے پاوں ہاروں تو تیری پیا

ڈاکٹر صاحب!آپ کی پوری زندگی اس شعر کی تعبیر تھی، آپ نے درس و تدریس کے شعبے سے واقعی سچا عشق کیا، زمانے نے کیا کیا نہ ستم ڈھائے لیکن جیت ہمیشہ آپ کا مقدر رہی، آپ کی جیت کے ان گنت میڈلز روزانہ تمام ٹی وی چینلز پر طلوع ہوتے ہیں، اخباروں میں چھپتے ہیں، سوشل میڈیا پر دھاک بٹھاتے ہیں اور جب جب اس سے پوچھا جاتا ہے کہ ”ہی و اِز یور فرسٹ مینٹور“ تو وہ بلا جھجک کہتے ہیں؛ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ۔۔( اجمل جامی، اینکرپرسن)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں