dawn news ke sahafi ke khilaaf toheen e adaalat

ڈان نیوزکے صحافی کے خلاف توہین عدالت کیس۔۔

تحریر: فرحان احمد خان۔۔

مظفرآباد سے ڈان نیوز سے منسلک صحافی طارق نقاش کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی ہے جس پر فرحان احمد خان لکھتے ہیں کہ ’آزادکشمیر‘ میں کچھ عرصے سے آزادی اظہار رائے پر قدغنیں لگانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔صحافیوں اور سٹیزن جرنلسٹس کو دبانے کا سلسلہ جاری ہے۔کچھ مقدمات اور گرفتاریاں بھی ہوئیں- ان میں سے بیشتر کا تعلق پولیس یا انتطامی افسران کی بدانتظامیوں پر لکھنے والے صحافیوں یا سیٹزن جرنلسٹس سے ہے۔سینیر صحافی اور سنٹرل پریس کلب مظفرآباد کے سابق صدر طارق نقاش کو اب کی بار نشانہ بنایا گیا ہے۔ طارق نقاش کے خلاف توہین عدالت کی ایک رٹ پٹیشن دائر کی گئی ہے۔ پٹیشن کی وجہ طارق نقاش کے 17 جنوری 2020 کے اُس ٹویٹ کو بنایا گیا ہے جس میں انہوں نے آزادکشمیر کی عدلیہ کی حالت زار پر تبصرہ کیا تھا۔

یہ اقدام بلاوجہ نہیں ہے۔ طارق نقاش ’ڈان‘ کے ساتھ وابستہ کہنہ مشق سینئر صحافی ہیں اور ان کے کریڈٹ پر بے شمار اہم اسٹوریز ہیں، انہوں نے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس آزادکشمیر پر کچھ سوال اٹھائے تھے۔ سابق چیف جسٹس گھر جاتے ہوئے ایک لگژری گاڑی فرسودگی کی قیمت (جو کہ نہایت معمولی تھی) پر ساتھ لے گئے تھے۔ بظاہر یہ کارروائی قانون کے مطابق ہوئی تھی لیکن اس پر سوال جنوئین تھا۔ اس کے بعد طارق کے خلاف ایسی درخواست بازی متوقع تھی۔ایک واقعہ ابھی چند دن قبل کا ہے، ایک ریٹائر سرکاری افسر کو عدالت کے ایک فیصلے کی بنیاد پر ملازمت چھوڑنے کے 10 سال بعد گریڈ 22 کی مراعات دی گئی ہیں ، اس اقدام کے بعد بھی کئی طرح کے سوالات گردش میں ہیں۔ سوالات تو لوگ پوچھتے رہتے ہیں۔

میں تو کہتا ہوں کہ اس کیس کا دائرہ اب کی بار ذرا وسیع ہونا چاہیے۔ آزادکشمیر میں سوشل میڈیا پر اور صحافیوں پر لگائی جانے والی قدغنیں اور سنسر شپ کا غیر مرئی حِصار بھی زیر بحث آنا چاہیے، عدلیہ سے جڑے بہت سے امور پر بھی کورٹ میں کُھل کر بات ہو جانی چاہیے اور صحافیوں پر قائم عدالتی ریگولیٹری پر بھی بحث و تحمیص ہونی چاہیے- طارق نقاش اچھی ساکھ رکھنے والے صحافی ہیں، وہ اس کیس میں آسانی سے مات نہیں کھائیں گے۔

باقی جہاں تک تعلق دائر کی گئی رٹ پٹیشن کی عبارت کا ہے ،تو وہ پڑھ کر میں کافی مایوس ہوا ہوں- میں وکلاء بارے میں کافی خوش گمان تھا، لیکن اندازہ ہوا کہ ان کی حالت بھی کچھ اچھی نہیں ہے۔ یہ لوگ پٹیشن ٹویٹر پر کیے گئے ایک تبصرے کی بنیاد پر دائر کر رہے ہیں لیکن اس کے نام کے سپیلنگ (ہِجوں) تک سے ناواقف ہیں۔ لفظ ’’کارسپانڈنٹ‘‘ اور ’’کارسپانڈنٹس‘‘ میں ان کے نزدیک کوئی فرق نہیں۔ یہ DAWN کو DOWN لکھ رہے ہیں۔ رہے جملے، تو ان کی کنسٹرکشن پر اب کیا بات کی جائے۔

اس پٹیشن کے عجیب و غریب سے لیگل گراونڈزمرتب کیے گئے ہیں۔ ٹویٹ کی تشریح بھی اپنی ہی کی ہے۔ درخواست گزاروں نے اتنی زحمت نہیں کی کہ پٹیشن کا ڈرافٹ کسی مشّاق وکیل کو ہی دِکھا لیتے جو کم از کم اس کی عبارت درست کر دیتا۔ اب لوگ اس پٹیشن کی زبان پر مزاحیہ تبصرے کر رہے ہیں۔شروع میں پٹیشنرز کا تعارف کراتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ’’یہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے وکیل ہیں جو آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں‘‘۔ خدایا! رُول آف لاء اور آئین کی سُپرمیسی کی جدوجہد پر یہ دن بھی آنے تھے۔

اس پٹیشن کے مشکوک پس منظر کے باوجود میں سمجھتا ہوں پٹشنر کا یہ حق ہے کہ وہ کوئی بھی ایشو کورٹ کے سامنے اٹھائیں، اپنے سوالات لائیں اور وہاں ٹھوس گراونڈز پر بحث ہو، اس طرح سماج میں امکانات کے در کھلتے ہیں۔ بحثوں کو دبا دینے یا انڈر دی ٹیبل بارگینگ سے سماجی روگ مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ ہم صحافی ہمشہ ’’سوال‘‘ کی وکالت کرتے ہیں اور یہی سمجھتے ہیں کہ سوال ہی اصلاح احوال کی بنیاد بنتا ہے۔

اگر یہ پٹیشن سماعت کے لیے فِکس ہو جاتی ہے تو مجھے امید ہے کہ طارق نقاش اس امتحان میں سُرخرو ہوں گے اور یہ کیس ایک مثال بنے گا۔ اب کی بار بحث ذرا کُھل جائے تو کچھ بُرا نہیں۔۔(فرحان احمد خان)۔۔

(یہ تحریر فرحان احمد خان کی وال سے لی گئی ہے جو لاہور کے ایک چینل سے منسلک ہیں، تحریر کے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں