nazariyati ikhtelaf | Imran Junior

دس سیکنڈ

علی عمران جونیئر

دوستو،دوستو ایک ہزار سے کچھ زائد الفاظ کی ہماری یہ اوٹ پٹانگ لفاظی پڑھنے میں آپ کو صرف پانچ منٹ لگیں گے، پانچ منٹ یعنی تین سو سیکنڈز ، اگر آپ کے چوبیس گھنٹوں میں سے صرف پانچ منٹ کسی ٹینشن کے بغیر گزر جائے تو کیسا رہے گا؟ پانچ منٹ اتنا زیادہ ٹائم نہیں ہوتا، اس سے زیادہ ٹائم تو آپ لوگ واش روم میں لگادیتے ہوں گے، اس سے زیادہ ٹائم تو سونے کی کوشش میں لگ جاتا ہوگا، اس سے زیادہ ٹائم تو آپ کو آفس جانے کے لئے تیار ہونے میں لگ جاتا ہوگا، اس سے زیادہ ٹائم تو آپ کو بریک فاسٹ، لنچ اور ڈنر میں لگ جاتا ہوگا، لیکن ان تمام کاموں کے دوران آپ کو کسی نہ کسی بات کی، کسی نہ کسی چیز کی ٹینشن ضرور رہتی ہوگی، لیکن ہم بالکل آپ کو ٹینشن دینے کا ارادہ نہیں رکھتے، اس لئے چلئے اپنی اوٹ پٹانگ باتیں شروع کرتے ہیں۔

آپ بچپن سے سنتے چلے آرہے ہوں گے کہ دنیا گول ہے۔حقیقت میں دنیا گول ہے، سائنس کہتی ہے یہ دنیا بیضوی یعنی انڈے کی شکل والی ہے، لیکن دنیا گول ہونے کا فارمولہ اس وقت سمجھ آتا ہے جب کچھ نہ کچھ گھوم پھر واپس اپنے پاس چلاآتا ہے۔ انسان پھل،سبزیاں چھوڑ کرسموسے، پکوڑے اور برگر کھاتا ہے پھر بیمار پڑ کر ہسپتال جاتا ہے۔ ہسپتال کے بستر پر وہ رشتہ داروں کے لائے ہوئے سیب، سنترے اور انگور کھاتا ہے اور رشتہ دار خود ہسپتال کے باہر بیٹھ کر سموے، پکوڑے اور برگر کھاتے ہیں۔ دنیا گول ہے۔۔چوہا بلی سے ڈرتا ہے، بلی کتے سے ڈرتی ہے، کتا آدمی سے ڈرتا ہے، آدمی بیوی سے ڈرتا ہے اور بیوی چوہے سے ڈرتی ہے پس ثابت ہوا واقعی دنیا گول ہے۔کوئی چور تھا، تو اس کے اندرکچھ پیسہ بنانے کی خواہش پیدا ہوئی، کیونکہ وہ اپنی محبوب بیوی کو کچھ دینا چاہتا تھا ۔اس نے ایک رات ایک گھر کے روشن دان میں سے کمرے میں داخل ہونے کی کوشش کی کہ یہ اچھا گھر ہے،اور مجھے یہاں سے کافی مال ملے گا، لیکن جب وہ اتنا اونچا چڑھا، اور روشن دان کے اندر سے گزرنے کی کوشش کی، تو وہ روشن دان جس کا چوکھٹا بظاہر ٹھیک نظر آتا تھا، ڈھیلا لگا تھا،وہ بمع چوکھٹے کے اندر کے فرش پر سر کے بل آگرا، اور اس کو سخت چوٹیں آئیں، چنانچہ اس نے وہ چوکھٹا اٹھایا اور قاضی وقت کے پاس شکایات کے لئے لے گیا ۔۔ اس نے کہا، جناب دیکھیں میں چوری کرنے کے لئے وہاں گیا تھا، یہ کیسا نالائق مستری ہے کہ جس نے ایسا چوکھٹا بنایا کہ یہ ٹوٹ گیا ہے، اس کو سزا ملنی چاہئے ۔قاضی وقت نے کہا، یہ تو واقعی بری بات ہے، اس لکڑی بیچنے والے کو بلایا گیا، چنانچہ وہ پیش ہوگیا۔۔ اس نے کہا، جناب اس گھر کی کھڑکی تو میں نے بنائی تھی ۔ اس سے کہا گیا تم نے اس قسم کی ناکارہ لکڑی کیوں لگائی؟ وہ بولا، جناب اس لکڑی کو بھی دیکھ لیں کسی سے ٹیسٹ کروائیں اس میں کوئی نقص نکلا تو میں ذمہ دار ہوں۔حضور بات یہ ہے کہ اس میں خرابی ہماری لکڑی کی نہیں اس ترکھان کی ہے جس نے یہ چوکھٹا ڈائیمنشن کے مطابق نہیں بنایا ۔قاضی نے ترکھان یا بڑھئی کو بلایا ، وہ پیش ہوگیا۔ ترکھان نے کہا میں نے چوکھٹا بالکل ٹھیک بنایا ہے یہ میرا قصور نہیں آپ ماہرین بلوا لیں وہ بتادیں گے میرے چوکھٹے میں کوئی خرابی نہیں۔ راج معمار جس نے اس کو فٹ کیا تھا یہ ساری کوتاہی اس کی ہے۔۔ چنانچہ راج معمار کو بلوایا گیا وہ عدالت میں پیش ہوا۔ـقاضی وقت نے کہا، اے نالائق آدمی بہت اعلا درجے کا چوکھٹا بنا ہوا ہے ڈائی مینشن اس کی درست ہے تو نے کیوں”موکھا ”اس کا ڈھیلا بنایا، صحیح طور پر اسے فٹ کیوں نہیں کیا؟اس نے سوچا واقعی عدالت ٹھیک پوچھ رہی ہے، چوکھٹے میں اور دیوار میں فاصلہ تو ہے۔ اس نے کہا، حضور بات یہ ہے، مجھے اب یاد آیا، جب میں چوکھٹا لگا رہا تھا تو میں نے باہر سڑک پر دیکھا اس وقت ایک نہایت خوبصورت عورت اعلا درجے کا لباس پہنے، بے حد رنگین لہنگا اور بے حد رنگین دوپٹہ اوڑھے جا رہی تھی، مزے سے اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی، تو میری توجہ اس کی طرف ہو گئی، جب تک وہ سڑک پر چلتی رہی میں اس کو دیکھتا رہا میں پوری توجہ نہ دے سکا اور چوکھٹے کو صحیح طرح سے نہ لگا سکا۔قاضی نے کہا ،اس عورت کو بلاؤ، عورت کو سب تلاش کرنے لگے، شہر میں سب جانتے تھے جو چھمک چھلو تھی کہ وہ وہی ہو گی سو عدالت میں پیش کر دیا گیا۔پوچھا گیا ،کیا تم یہاں سے اس روز گزری تھیں؟ کہا ،ہاں میں گزری تھی۔قاضی نے سخت لہجے میں پوچھا، تم نے ایسا لہنگا پہنا، ایسا غرارہ پہنا تھا، تو کیوں پہنا تھا؟وہ بولی،حضور بات یہ ہے کہ میرے خاوند نے مجھ سے کہا یہ تم کیا ڈل کلرز پہنتی ہو ، یہ اچھے نہیں لگتے، تم پر یہ کپڑے سجتے نہیں ، بہت اعلا قسم کے شوخ، اور بھڑکیلے کپڑے پہنو۔عدالت نے کہا ۔اس خاتون کے خاوند کو حاضر کیا جائے، چنانچہ عدالتی اہلکار اس کے خاوند کو پکڑ کر لے آئے، عدالت کے سامنے پیش کر دیا، وہ خاوند وہی شخص تھا، جو روشن دان سے چوری کرنے کے لئے اترا تھا۔

بات میاں بیوی کی ہورہی ہے،ایک روز رات کو بیٹھک لگی تھی اچانک ہم نے باباجی سے سوال کرلیا۔۔باباجی یہ بتائیں انسان بوڑھا کب کہلاتا ہے؟؟ باباجی نے ترچھی نظروں سے ہمیں دیکھااور فرمایا۔انسان بوڑھا جب کہلاتا ہے جب بیوی کہے،میری سہیلی کو گھر چھوڑ آئیں، رات بہت ہوگئی ہے۔۔بات شروع ہوئی تھی ، سیکنڈز اور منٹ سے، ایک حکیم صاحب کا دعویٰ تھا کہ وہ سیکنڈوں اور منٹ کا حساب کتاب کرکے مریض کو دوا دیتے ہیں۔حکیم صاحب کے مطب پر ایک شخص آیا اور کہا پیٹ میں بہت دردہو رہا ہے۔حکیم صاحب سمجھ گئے کہ قبض ہے، اس سے پوچھا۔۔ گھر کتنی دورہے تمھارا؟ مریض بولا۔۔ دو کلومیٹر۔حکیم صاحب نے کیلکولیٹر پر کچھ حساب کیا اور ایک بوتل میں سے چار چمچے دوائی نکال کر ایک کٹوری میں ڈالی۔ حکیم صاحب نے پھر پوچھا۔ گاڑی سے آئے ہو یا چل کر؟مریض نے کہا، چل کر۔ حکیم صاحب نے پھر سے کیلکولیٹر پر کچھ حساب کیا اور تھوڑی سی دوائی کٹوری سے واپس نکال لی۔حکیم صاحب نے پھر پوچھا،گھر کون سی منزل پر ہے؟ مریض بولا تیسری منزل پر۔۔حکیم صاحب نے دوبارہ کیلکولیٹر پر کچھ حساب کیا اور کٹوری سے تھوڑی سی مزید دوا نکال لی۔حکیم صاحب نے آخری سوال کیا۔ گھر کے مین گیٹ سے ٹوائلٹ کتنی دور ہے؟ مریض نے کہا ، پندرہ فٹ۔حکیم صاحب نے آخری بار کیلکولیٹر پر کچھ حساب کیا اور کٹوری سے تھوڑی دوا اور نکال لی۔حکیم صاحب بولے۔ اب میری دوا کے پیسے دے دو پہلے، پھر یہ دوا پیو، اور فٹا فٹ گھر کی طرف نکل لو۔ کہیں رکنا مت۔ پھر مجھے فون کرنا۔مریض نے ویسا ہی کیا۔ آدھے گھنٹے بعد مریض کا فون آیا اور ایکدم ڈھیلی آواز میں بولا۔۔حکیم صاحب دوا تو بہت اچھی تھی آپ کی،مگر آپ نے ناڑا کھولنے کا ٹائم کیلکولیٹ نہیں کیا تھا۔ہم دس سیکنڈ سے ہار گئے۔۔!

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔موبائل خراب ہو تو والدین کہتے ہیں بچوں نے خراب کیا ہے۔اور بچہ خراب ہو توکہتے ہیں موبائل نے خراب کیا ہے۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں