تحریر: محمد فیضان اسلم خان۔۔
فروری کے وسط میں جب پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا مریض سامنے آیا تب پاکستان سپر لیگ اپنے آخری مراحل میں تھی جوں جوں کورونا وائرس کے مریضوں میں اضافہ ہوتا گیا حکومتی اقدامات سخت ہوتے گئے۔۔پاکستان سپر لیگ کو پہلے بغیر تماشائیوں جاری رکھنے کا فیصلے کیا گیا لیکن معاملے کی سنگینی اور کچھ غیر ملکی کرکٹرز کو کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد حکومت نے پاکستان سپر لیگ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا. سندھ میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھتے ہوئے صوبائی حکومت نے لاک ڈاون کا اعلان کرتے ہوئے تمام سرکاری دفاتر، تعلیمی ادارے، مارکیٹیں سب بند کرنے کا فیصلہ کیا لیکن وزیر اعظم عمران خان لاک ڈاون کے حق میں نہیں تھے کیوں کہ اُن کا ماننا تھا کہ غریب کے گھر کا چولہا کیسے جلے گا. لیکن شائد وزیراعظم صاحب بھول گئے تھے کہ جان ہے تو جہان ہے. وقتاً فوقتاً پورے ملک میں لاک ڈاون کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا. لیکن روزمرہ کی چیزوں کی دُکانیں کھولنے کے لیے ایک وقت مقرر کر دیا گیا. پورے ملک میں لاک ڈاون ہونے کے باوجود کورونا کے مریضوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا. لیکن وفاقی حکومت کورونا وائرس سے متعلق کوئی خاص اور جامع حکمتِ عملی نہیں بنا سکے لیکن اپنے سندھ حکومت کے خلاف زبانی گولا باری کی حکمت عملی ضرور بنا لی وفاقی وزراء سندھ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے اور دوسری طرف سندھ حکومت کے وزراء وفاقی حکومت کے کورونا سے نمٹنے کے اقدامات عملی پر تنقید کرتے. وزیر اعظم خود اتنے کنفیوژن کا شکار تھے کہ کبھی لاک ڈاون لگانے کا اعلان کرتے تو کبھی لاک ڈاون کا زمہ دار ملک کی اشرافیہ کو ٹھہراتے. وفاقی حکومت سمیت تمام صوبائی حکومتوں کی ترجیحات عوام کی حفاظت نہیں بلکہ کچھ اور ہی ہے. جیسے جیسے کورونا کے مریضوں کی تعداد اضافہ ہورہا ہے حکومتوں کی جانب سے اُتنے ہی غیر سنجیدہ اقدامات نظر آرہے ہیں آج جب کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی ہیں اور مرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے حکومت لاک ڈاون نرم کر رہی ہے۔۔(محمد فیضان اسلم خان)۔۔