تحریر: محمد ضیاالحق نقشبندی۔۔
سنت ِابراہیمی کے ذریعے ’’ننگے پائوں چلنے والے سے لیکر ذاتی جہازوں میں سفر کرنے والے مالی فائدہ حاصل کرتے ہیں‘‘۔ 2019میں عیدالاضحی کے موقع پر ایک کروڑ 5لاکھ سے زائد جانور ذبح کیے گئے تھے۔ 425ارب کے جانور خریدے گئے جبکہ فروخت کرنے والوں نے 23ارب 40کروڑ کمائے، کچھ دن قبل چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ڈویژن کی سطح پر وفاقی وزیر پیر ڈاکٹر نور الحق قادری کی صدارت میں ’’عہد کورونا میں قربانی‘‘ کے بارے اجلاس منعقد ہوا، وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ اور وفاقی مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے مختصر مگر ضروری باتیں کی۔ ملک بھر کے جید علماء وڈیو لنک پر موجود تھے۔ سیکرٹریٹ لاہور میں ہماری میزبانی ہمارے دوست و مہربان ڈاکٹر سید طاہر رضا بخاری ڈی جی اوقاف پنجاب کر رہے تھے۔
قربانی سنت ِرسولﷺ ہے، اسلامی اشعار میں سے ہے اور اسلامی اشعار بقول پیر نور الحق قادری قیامت تک قائم رہیں گے اور اس حوالے سے حکومت بہتر سے بہتر حکمت ِعملی کے تحت عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس پہلے اجلاس کا مقصد یہ تھا کہ بڑھتے کورونا کی وجہ سے عید کے دنوں میں اموات کی شرح بہت زیادہ ہونے کا خدشہ ہے لہٰذا نماز عید اور قربانی یعنی منڈیوں، قربان گاہوں میں رش کی وجہ سے مرض کے پھیلائو میں اضافہ نہ ہو جائے، جیسے عید الفطر کی شاپنگ اور ایک رش کی تقریب نے کورونا کو پھیلایا۔ حکومت، سیاسی راہنمائوں، علماء اور عوام کے سامنے میں کچھ تجاویز پیش کرنا چاہتا ہیں لیکن فتنوں کے اس دور میں سچ لکھنا اور بولنا مشکل ہو گیا ہے لیکن کیا کریں۔ ہم تاریخ کو جوابدہ ہیں۔ میری آرا کچھ یوں ہیں۔ دیہات میں یہ مرض الحمدللہ اس وقت بالکل نہیں ہے۔ منڈیوں میں آنے والے دیہات کے سادہ مگر صحت مند لوگوں کے لئے الگ سے سخت سے سخت ایس او پیز بنائی جائیں تاکہ خدانخوستہ کورونا کا مرض بیوپاری ساتھ دیہات میں نہ لے جا سکیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو سارا سال جانوروں کی پرورش صرف اور صرف قربانی کے دنوں کے لئے کرتے ہیں۔ اگر وہ جانور فروخت اچھی قیمت پر نہ کر سکیں تو غریب اور غربت میں فاصلہ بھی ختم ہو جائے گا۔ جانوروں کی خریداری کے مراکز یعنی مویشی منڈیوں کی تعداد پورے ملک میں پچھلے برسوں کی نسبت چار گنا بڑھ دی جائے۔ یا پھر پہلے والی منڈیوں میں ہی فیزو بلاکس بنا دیے جائیں اور افراد کی تعداد کا تعین کر لیا جائے کہ ایک بلاک میں ایک وقت میں کتنے افراد جانور خرید سکتے ہیں، چھوٹا جانور خریدنے کے لئے ایک فرد اور بڑا جانور خریدنے کے لئے دو افراد کو منڈی میں جانے کی اجازت ہو لیکن خدارا، اس عمل سے کہیں جانور فروخت اور خریدنے والوں کا نقصان نہ ہو جائے۔ جانوروں کے خرید و فروخت کے دوران ماسک یقینی بنایا جائے، منڈیوں میں بچوں اور بوڑھے افراد کا داخلہ بند کیا جائے، دیہات سے جانور لیکر آنے والے بھی کسی صورت میں 60سال سے زائد افراد کو ساتھ لیکر نہ آئیں۔ یہاں بھی خدشہ ہے، اگر جانور پالنے والا خود ہی 60سے بڑا ہو اور کوئی اس کا مدد گار نہ ہو یا پھر اسے کسی دوسرے پر اعتماد نہ ہو تو یہ بھی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے؟ منڈیوں میں گیٹ اسپرے، تھرموگن کا استعمال کیا جائے لیکن یہاں بھی گرمی میں درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے تھرموگن لوگوں کو پریشان کرنا نہ شروع کر دے جیسا کہ میرے ساتھ ایک دن آفس میں آتے ہوئے ایسا ہوا۔ جانوروں کو جراثیم کش اسپرے کیا جائے۔ حکومت بڑے چھوٹے مدارس اور این جی اوز کو پابند بنائے کہ وہ قربان گاہ میں میلہ کاسماں نہ بننے دیں اور اس حوالے سے اہلِ علاقہ کو بھی چاہئے کہ وہ اخلاقی جرات دکھائیں قربان گاہ کا رُخ نہ کریں، ادارے گھروں میں گوشت کی سپلائی یقینی بنانے کا مظاہرہ کریں اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر حصہ دار کاصرف اور صرف ایک فرد ہی گوشت لینے گھر سے آئے۔ اس موقع پر اجتماعی قربانی کرنے والے کو چاہئے کہ وہ گوشت لینے کے لیے آنے والوں کے لئے ایک راستہ آنے اور دوسرا جانے کے لئے مختص کریں، قربانی کرنے والے تمام بڑے اداروں کو چاہئے کہ وہ بھی زیادہ سے زیادہ قربان گاہیں بنانے کی کوشش کریں یا پھر چھوٹے اداروں سے اس حوالے سے معاونت حاصل کریں یوں اس طرح چھوٹے اداروں کو اپنے پائوں پر مزید کھڑا ہونے کا موقع ملے گااور ان کی آمد ن بڑھے گی۔ تمام ادارے تنظیم اتحاد امت سے معاونت لیں کیونکہ پچھلے پانچ سال سے یہ تنظیم جہاں غریب بچوں کو سی ایس ایس اور پی ایم ایس کروا رہی ہے، وہی پر ایک بہترین نظام کے تحت 25خوبیوں والی اجتماعی قربانی کا اہتمام بھی کرتی ہے۔ مثلاً ادارے قربانی کیلئے بکنگ کا اہتمام آئن لائن کر دیں، اکائونٹ، موبائل کمپنیوں کی موجود سہولیات سے فائدہ اٹھائیں۔ اگر یہ بھی ممکن نہیں تو پھر اپنے نمائندوں کو لوگوں کے گھروں میں متعلقہ ایڈریس پر بھیج کر رقم وصول کریں۔ جانوروں کی تصاویر ویب اور سوشل میڈیا اکائونٹ پرڈال دیں اور جانوروں کو نمبر ز لگا دیے جائیں جس جانور کی بکنگ مکمل ہو جائے اس کو الگ بلاک میں شامل کر دیا جائے، بکنگ والے افراد کا نام ساتھ لکھا جا سکتا ہے۔ جانور نمبر ون، ٹو، تھری وغیرہ کے نام سے وٹس ایپ گروپ بنا کر روازنہ لوگوں کو جانور کی صحت، خوراک کے بارے تصاویر سینڈ کرتے رہیں۔ ہیلپ لائن اور وٹس ایپ نمبر زیادہ سے زیادہ عام کریں۔ یہ سہولیات زیادہ سے زیادہ دس دن اور کم از کم تین دن پہلے دیں۔ زیادہ جانور بکنگ والے ادارے تینوں دن قربانی کا اہتمام کریں عیدالضحیٰ کی نماز باجماعت زیادہ رش والے علاقوں میں ایک سےزائد جماعتیں کرائیں، تمام اسٹیک ہولڈرز اور قربانی کرنے والے ادارے فیصلے بروقت جلدی کریں تاکہ لوگ الجھن کا شکار نہ ہوں۔ کئی برسوں سے کھالوں کی کم قیمت پر وزیراعظم توجہ دیں لیکن خدارا مافیا کو للکارنا مت ورنہ موجودہ کھال کی قیمت اور کم نہ ہو جائے۔(بشکریہ جنگ)۔۔