تحریر: کشور ناہید۔۔
تو ہوا یوں کہ میں اور فوزیہ سعید لوک ورثہ میں، میری سالگرہ کا کیک کاٹنے کیلئے گئے۔ کورونا ہمیں دیکھتے ہی حملہ آور ہو گیا اور ٹیسٹ کرانے پر ثابت ہوا کہ ہم کورونا کا شکار ہو چکے ہیں اور اب الگ الگ کمروں میں پندرہ دن کے لئے اپنے اپنے گھر میں مقید ہونا تھا۔ ایسا تو سب کورونا مریضوں کے ساتھ ہوتا ہی ہے مگر ہمارے ساتھ جو عجیب منظر نامہ ہوا، وہ کہانی طلسم ہوشربا سے کم نہیں ہے۔ میں نے دفتر سے اسسٹنٹ کو بلایا کہ یہ کالم لو اور جنگ کو بھیج دو۔ اس نے فوراً کہا اس کو آپ کا کورونا والا ہاتھ لگا ہوا ہے، میں نہیں پکڑوں گا۔ اب میں نے افسر ہونے کے زعم میں باس کو فون کرکے شکایت کی انہوں نے التجا کی کہ آپ کے ہاتھ کے لکھے کو پکڑنے سے صرف ایک بندہ نہیں پورا دفتر بیمار ہو جائے گا، اس لیے معاف فرمائیے۔ اب میں خود دوائیاں لینے گئی۔ جب پیسے دینے لگی، کیشئر نے کہا ’’میں چمٹے سے پکڑ کر آپ کے نوٹ لے سکتا ہوں، کیونکہ آپ کو پرانا جانتا ہوں، ورنہ ہم سب کو بھی کورونا ہو جائے گا۔
اب میں اور فوزیہ اپنے اپنے کمروں میں مقید تھے اور قیدیوں کی طرح کھڑکی بجاکر ہمیں چائے اور کھانا پکڑا دیا جاتا رہا۔ اب ایک اور پُرلطف داستان۔ جب ڈائلسس والے ٹیسٹ کرنے اپنے یونیفارم اور آلات کے ساتھ میرے فلیٹ میں آئے تو سارے فلیٹوں کی کھڑکیوں سے سب ایسے دیکھنے لگے کہ جیسے کوئی بندر کا تماشا ہو رہا ہے۔ جب ٹیسٹ کرنے کے بعد وہ واپس گئے تو سارے فلیٹ والے فون کرکے پوچھتے رہے کہ واقعی آپا کو کورونا ہو گیا ہے۔ بس وہ دن اور آج کا اٹھارہواں دن کہ جب ٹیسٹ کرنے والے دوبارہ آئے اور مطمئن گئے تو گارڈ، ہر فلیٹ والے نے بڑھ کر پوچھا ’’اب کورونا تو نہیں ہے‘‘۔
یہ منظر نامہ بتاتا ہے کہ لوگ کورونا سے کس قدر ڈرے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود کہ روز ایک نہ ایک سیکٹر میں لاک ڈائون ہو رہا ہے۔ واقعی بداحتیاطی کے باعث ہی کورونا پھیلتا رہا ہے۔ اس ڈرامائی تشکیل کو سنانے کا مطلب یہ بھی تھا کہ ڈرنا واقعی نہیں چاہئے، البتہ لڑنا چاہئے۔ مگر میں تو اتنا لڑی کہ معلوم نہیں ڈاکٹر زینت کی دوائیوں کے باعث میں دن اور رات میں زیادہ وقت سوتی رہی۔ لوگوں نے ڈرایا تھا کہ بخار ہوگا جس میں درد ہوگا، سانس مشکل سے آئے گا۔ میں ان سب ڈرائونے حملوں سے ڈرتی رہی اور وہ سب شاید مجھ سے ڈرتے رہے۔ بہرحال 18دن کی قید بامشقت گزار کر اور بے پناہ سوپ، افتخار عارف کے بھیجے ہوئے بےشمار فروٹ زبردستی کھاتی رہی۔ ہر روز کسی نہ کسی دوست کے گھر سے سوپ آجاتا، یخنی آجاتی، ناپسند ہونے کے باوجود دوستوں کی محبت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے زبردستی پیتی رہی۔ ہر روز میری ڈاکٹر زینت اس قدر تفصیل سے چیک کرتی رہی اور ثمر من اللہ میرا ٹمپریچر صبح شام چیک کرتی رہی۔ سارے دوستوں کو مطمئن کرنے کیلئے، حمید شاہد، طاہرہ عبداللہ اور صنوبر کی ڈیوٹی لگی تھی کہ ساری دنیا کے فون ہر لمحہ آرہے تھے۔ میں بھی کیسی ڈھیٹ ہوں کورونا کو بھگا دیا اور اب آپ سے مخاطب ہوں۔
فوزیہ سعید نے کورونا کے باوجود، سارے دوستوں کو زوم پر اکٹھا کیا۔ مزے مزے کی میرے بارے میں گفتگو کی۔ کیک کاٹا اور یوں سر پر ٹھہری ہوئی بلا کو ٹالا۔ اس سارے ماحول اور لوگوں کے رویے سے یہ اندازہ ہوا کہ لوگ کورونا سے لڑ نہیں بلکہ ڈر رہے ہیں۔ سب لوگوں نے گھروں میں کام کرنے والی عورتوں کو آنے سے روک دیا ہے۔ یہ احتیاط نہیں، واقعی ڈر ہے۔ کورونا والے شخص سے تو خیر ہاتھ نہیں ملانا چاہئے کہ کسی دوسرے سے ہاتھ ملانا احتیاطاً منع ہے مگر ایک ہاتھ سے نوٹ پکڑنا، مضمون پکڑنا، یہ ساری باتیں احتیاط کے ضمن میں نہیں بلکہ خوف کے ضمن میں آتی ہیں۔ ہم لوگوں نے اچھوت اور کورونا کو ایک کر دیا ہے۔ میرے علم میں ہے کہ والد کے مرنے پر اولاد قبر میں اتارنے سے ڈرتی ہے۔ اگر ہر ایک کا دن مقرر ہے تو پھر یہ خوف کیوں؟ کیا زندگی رشتوں سے زیادہ عزیز ہے؟ ادھر ملک بھر میں سینکڑوں لوگ کورونا سے مر رہے ہیں۔ اُدھر بجٹ پاس کرانے کے لئے اس سادہ وزیراعظم کی جانب سے ووٹ لینے کے لئے ڈنر کا اہتمام کیا جا رہا ہے، دوسری طرف ناراض گروپ، اپنے مرغن کھانے کھا رہا ہے۔ خیر یہ تو کوئی نئی بات نہیں۔ ہر سال یونہی ہوتا ہے۔ مگر کیا ہی اچھا ہوکہ روسی صدر پیوٹن کی طرح اپنے دورِ حکومت کو 30برس تک بڑھا دیں، ناراض اور مخالف گروپ کا کام تو ہے ہی رولا ڈالنا۔ وہ اپنے کام پر لگے رہیں۔ بازار میں چینی 140 روپے ملتی رہے۔ آخر چینی کھانا چھوڑ دیں گے۔
کورونا کے باعث دو اہم تبدیلیاں آئی ہیں۔ ایک تو جارج فلائیڈ کے بے رحمانہ قتل اور وہ بھی سفید فام پولیس کی سفاکی سے، جسے دنیا بھر نے دیکھا۔ دنیا کے ہر ملک (سوائے برصغیر) نے 18دن تک شدید مظاہرے کیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر کی بیوٹی کریم کمپنی والوں نے رنگ گورا کرنے کی اصطلاح قطعی ختم کر دی ہے۔ اخباروں سے لیکر مضامین تک میں کالے گورے کی تخصیص ختم کر دی گئی ہے۔
دنیا میں ویسے ایک تحریک چلی ہے کہ کورونا کے باعث چونکہ 6ماہ تک ڈیزائنرز کے کپڑے نہیں فروخت ہوئے۔ زیادہ تر خواتین نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ نئے کپڑے نہیں خریدیں گی۔ پچھلے سال کے کپڑوں کو کہیں بلاک پرنٹنگ کرا کر، کہیں کچھ کپڑوں کو نئے جوڑ لگوا کر رلی جیسے ڈیزائن بنا لیں گی۔ ہماری ڈیزائنرز کی دکانیں بھی کم قیمت پر کپڑے فروخت کرکے، خسارے کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کاش ہماری خواتین بھی سگھڑ پن کرکے پرانے کپڑوں کو نیا بنا لیں۔ میری خوش فہمی کی بھی کوئی حد نہیں۔(بشکریہ جنگ)۔۔