تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،کیا صرف تھپڑ مار کر مرغی پکائی جاسکتی ہے؟ اس سوال کا عام جواب ’نہیں‘ میں ہوگا لیکن امریکی یوٹیوبر لوئی وائز نے یہی کارنامہ انجام دیا ہے۔البتہ اس کے لئے انہیں مرغی کے گوشت کو سوا لاکھ سے زائد بار تھپڑ مارنا پڑے جس میں 8 گھنٹے لگ گئے۔ لوئی وائز نے اپنے یوٹیوب چینل پر اس دلچسپ تجربے کی ویڈیو شیئر کی ہے جس میں کامیابی کے لیے انہیں دو مہینے سے بھی زیادہ کا وقت لگ گیا۔وائز ایک ہر فن مولا قسم کے انسان ہیں جو اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے دلچسپ عملی ایجادات و اختراعات پیش کرتے رہتے ہیں۔ تھپڑ مار مار کر مرغی پکانے والی مشین ان کی سب سے نئی ایجاد ہے۔اگر مرغی کے گوشت کو ایک زوردار تھپڑ مارا جائے تو اس کا درجہ حرارت 50 سے 60 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوجاتا ہے، لیکن ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت کے لئے۔ وڈیو میں وہ بتاتے ہیں کہ متعدد بار غلطیاں کرنے کے بعد، آخرکار وہ ایک ایسی مشین یعنی ”چکن سلیپر“ (مرغی کو تھپڑ مارنے والی مشین) ایجاد کرنے میں کامیاب ہوگئے۔اس مشین میں ایک مضبوط ڈنڈے کا ایک سرا پسٹن پمپ کی گول پلیٹ سے باندھا گیا ہے جبکہ دوسری جانب دستانہ چڑھا ہوا ہے۔جب طاقتور موٹر چلتی ہے تو وہ گول پلیٹ کو تیزی سے گھماتی ہے اور ڈنڈے پر چڑھا ہوا دستانہ بہت تیزی سے مرغی کو تھپڑ مارتا ہے۔وائز کی ایجاد کردہ مشین نے مسلسل آٹھ گھنٹے تک مرغی کو تقریباً ایک لاکھ 35 ہزار تھپڑ (یعنی ایک سیکنڈ میں 4 سے زیادہ تھپڑ) مارے، جس کی وجہ سے مرغی کا درجہ حرارت بھی مسلسل 60 ڈگری سینٹی گریڈ رہا۔اس طرح آٹھ گھنٹوں میں مرغی نرم ہو کر گل گئی، جسے وائز نے مزے لے کر کھایا اور عوام کو دکھایا۔اگرچہ وائز کے ”چکن سلیپر“ نے مرغی ”پکانے“ میں ایک عام مائیکرو ویو اوون کے مقابلے میں تین گنا زیادہ توانائی استعمال کی لیکن اتنا ضرور ثابت کردیا کہ تھپڑ سے پیدا ہونے والی گرمی سے مرغی ضرور پکائی جاسکتی ہے۔
بات مرغی کی ہورہی ہے توبھارت میں انوکھی قسم کی نایاب نسل کی مرغی کا ذکر بھی سن لیجئے۔۔بھارت کے بعض علاقوں میں عام پائی اور کھائی جانے والی مرغی مکمل طور پر گہرے سیاہ رنگ کی ہوتی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا گوشت بھی بہت حد تک کالا ہوتا ہے۔مرغ کا نام کڑک ناتھ اور بھارت میں اسے ’کالی ماسی‘ کا نام بھی دیا گیا ہے۔ یہ مرغ بھارت کے کئی علاقوں میں مشہور ہے اور رغبت سے کھایا جاتا ہے۔ اگرچہ گوشت کی سیاہ رنگت عجیب لگتی ہے لیکن پکنے کے بعد اس میں کچھ تبدیلی ضرور آتی ہے۔دوسری جانب اس مرغ کے پیر، سر، جلد اور پر تک بالکل کالے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ برائلر مرغیوں کے مقابلے میں کڑک ناتھ کا گوشت زیادہ غذائیت رکھتا ہے۔ کالی ماسی پہلے پہل مدھیا پردیش کے ضلع جھابوا میں مقبول تھی اور دھیرے دھیرے اس کے کئی فارم ہندوستان کے کئی علاقوں میں قائم ہوئے۔ اب چھتیس گڑھ، تامل ناڈو، آندھرا پردیش اور مہاراشٹر میں یہ عام پائی جاتی ہیں۔غذائی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اس میں دیگر مرغیوں کے مقابلے میں چکنائی اور کولیسٹرول کی شرح بہت کم ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس کا گوشت بہت مہنگا فروخت ہوتا ہے۔ کئی بھارتی علاقوں میں زندہ مرغی کی قیمت 850 روپے اور گوشت کی قیمت 1000 سے 1200 روپے فی کلوگرام تک ہے۔ اس طرح عام مرغیوں کے مقابلے میں اس کی قیمت تین گنا زائد ہے۔کالی ماسی اس لیے مہنگی ہے کہ اسے پالنے اور پروان چڑھانے میں بہت وقت لگتا ہے۔ عام برائلر مرغی 45 دن میں تیار ہوجاتی ہے جبکہ کڑک ناتھ کو پروان چڑھنے میں 8 مہینہ لگتا ہے۔ بعض تصاویر میں دکھایا جاتا ہے کہ کالی ماسی کے انڈے اور خون بھی سیاہ ہے جو ایک غلط بات ہے۔اگرچہ بھارت سے باہر اس طرح کی سیاہ گوشت اور رنگت والی مرغیاں عام نہیں ملتیں لیکن چین میں ’سلکیز‘ نامی مرغیاں عام ہیں جن کی رنگت گہری سرمئی اور گوشت بھی سرمئی ہوتا ہے۔
ایک پینڈو شہر گیا، وہاں اسے ایک گھر میں ملازمت مل گئی، صاحبِ خانہ نے اس کو سمجھایا کہ دیہاتی طور طریقے سے نہ بلایا کرو بلکہ جب بھی کسی کے بارے میں بات کرو تو صرف اس کا نام نہیں لینا بلکہ اس کے ساتھ صاحب یا صاحبہ ضرور لگایا کرو۔تھوری دیر بعد وہ بھاگتا ہوا آیااورکہنے لگا۔ جناب آپ کے کتے صاحب نے پڑوسی صاحبہ کی مرغی صاحبہ کو پکڑ لیا ہے۔۔مرغیاں پالنے کا ایک اشتہار دیکھ کر ایک صاحب کو مرغیاں پالنے کا شوق ہوا۔ بہت سوچ بچار کے بعد انہوں نے منصوبہ بنایا۔ اس منصوبہ کے تحت ان کو ملازم رکھنا تھا۔ اخبار میں اشتہار دیا گیا۔ ایک صاحب پہنچے انٹرویو میں ان سے پوچھا گیا۔ ”کیوں میاں! مرغیوں سے کچھ دلچسپی ہے؟“ امیدوار نے جواب دیا۔ ”صاحب! میں تو غریب آدمی ہوں۔ جو دیں گے کھا لوں گا۔“۔۔ ایک دوست دوسرے سے بولا۔۔افسوس ہے کہ میری مرغی نے آپ کی کیاری کا ستیاناس کر دیا۔دوسرا دوست کہنے لگا۔ کوئی بات نہیں آپ کی مرغی کو میرے کتے نے نگل لیا ہے۔۔پہلا دوست قہقہہ مارکر بولا۔۔ کوئی بات نہیں، آپ کا کتا میری کار کے نیچے آ کر مر گیا ہے۔۔ایک دن مولوی صاحب بچوں کو مدرسے میں پڑھا رہے تھے۔ اچانک ایک بچے نے اٹھ کر مولوی صاحب سے کہا کہ مولوی صاحب۔۔۔ کل ہماری امی آپ کو ایک مرغی بھجوانے والی ہیں۔ یہ سن کر مولوی صاحب کی رال نکل آئی اور وہ مرغی کے انتظار میں محو ہوگئے۔اگلے روزمدرسہ کھلا، سب بچے آئے اور وہ بچہ بھی آیا جس نے مولوی صاحب کو مرغی کے بھجوانے کی نوید سنائی تھی۔ مگر اُس بچے نے مرغی کی بابت کچھ بات نہ کی اور چھٹی بھی ہوگئی۔دوسرے دن پھر مدرسہ کھلا اور پھر بھی مرغی کے کوئی آثار نہیں نظر آئے۔ کچھ دن تو مولوی صاحب برداشت کرتے رہے مگر جب ایک ہفتہ گزر گیا تومولوی صاحب سے رہانہیں گیا، بچے سے آخر پوچھ ہی لیا۔۔ بیٹا۔۔ آپ کی امی ایک ہفتے پہلے جو مرغی بھجوانے والی تھیں اس کا کیا ہوا۔؟۔ یہ سنتے ہی بچہ بوکھلا گیا اور کہنے لگا۔ مولوی صاحب۔۔ وہ مرغی تو اب ٹھیک ہوگئی ہے اور دانہ بھی کھانے لگ گئی ہے۔
ایک بوڑھے آدمی کو یہ شک تھا کہ اس کی بیوی کم سنتی ہے۔ اس نے اپنے خاندانی ڈاکٹر کو فون کیا۔ ڈاکٹر نے اسے بیوی کی سماعت چیک کرنے کا ابتدائی طریقہ بتایا کہ پہلے اپنی بیوی سے پچاس فٹ دور کھڑے ہو کر اس سے کچھ کہو۔ اگر وہ کوئی جواب نا دے تو آہستہ آہستہ اس کے نزدیک جاتے جاؤ،جب تک کہ وہ جواب نا دے۔ اس رات جب اس کی بیوی باورچی خانے میں کھانا بنا رہی تھی اس نے باہر کھڑے ہو کر اپنی بیوی سے پوچھا کہ کھانے میں کیا بنا رہی ہو۔ کوئی جواب نہ آیا۔ وہ آہستہ آہستہ اس کے قریب جاتا رہا اور پوچھتا رہا لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ حتیٰ کہ وہ بالکل اپنی بیوی کے پاس پہنچ گیا۔ اس بار جب اس نے پوچھا کہ کھانے میں کیا بنا رہی ہو تو بیوی نے غصے سے جواب دیا کہ میں آپ کو کتنی دفعہ بتا چکی ہوں کہ مرغی بنا رہی ہوں۔ آپ کو سنائی کیوں نہیں دے رہا؟؟
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔کئی چیزیں کئی چیزوں کو کھا جاتی ہیں۔ جھوٹا قسم کو، قسم جھوٹے کو، افسر رشوت کو، رشوت حق کو اور حق افسر کو۔ مرغی کیڑوں کو، انسان مرغی کو، کیڑے انسان کو، بھینس چارے کو، لاٹھی والا بھینس کو اور بے آواز لاٹھی، لاٹھی والے کو۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔