بلاگ: خرم شہزاد
سینسر شپ ۔۔۔ ایک دو دھاری تلوار ، جس سے ہر حکومت میڈیا کی ٹانگیں کاٹنے کی کوشش کرتی ہے اور میڈیا والے اس سے بچ کر حکومت کی ٹانگیں کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہر حکومت کی میڈیا کے ساتھ لڑائی ہی رہی ہے اور میڈیا کے مطابق اس پر پابندیاں لگانے کا کوئی موقع حکومت وقت جانے نہیں دیتی۔ جنرل مشرف پاکستان میں واحد حکمران ہیں جنہوں نے میڈیا کو بہت زیادہ آزادی دی اور یہ آزادی حد سے زیادہ آزادی کے طور پر استعمال ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میڈیا ایک طرح سے بے لگام ہو گیا، اپنی اس آزادی کی نہ میڈیا نے قدر کی اور نہ ہی اس آزادی دینے والے کی ذرا بھی قدر کی جس کے نتیجے میں میڈیا کے ساتھ ناشکرے والا انجام ہوا اور میڈیا دوبارہ سینسر شپ کی دہائیاں دینے لگا۔ اخبارات کے صفحے اور ٹی وی کے چینلز سینسر شپ کا ایسا شور مچانے لگے کہ عام آدمی کی گفتگو میں بھی سینسر شپ پر بات ہونے لگی اور عام آدمی تو ہمارے ہاں ہر حکومت مخالف آواز پر ایمان لانے کو تیاربیٹھا ہو تا ہے۔ آج یہی صورت حال ہے کہ کہیں کوئی بھی خبر حکومت کے خلاف ہو ، عام آدمی اس پر ایمان لے آتا ہے کہ واقعی ایسا ہی ہوا ہو گا۔ سوشل میڈیا کا یہ نقصان بھی ہوا کہ کوئی بھی شخص حکومت کے خلاف کچھ بھی بول سکتا ہے اور اسے کسی بھی ثبوت کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ۔ لیکن اس سارے مسئلے میں کبھی عام آدمی نے کسی بھی صحافی سے یہ سوال نہیں کیا کہ سینسر شپ کیا ہوتی ہے۔ آج ہم اس سوال کا جواب تلاش کریں گے اور اس تلاش میں کسی بھی میڈیا مین کو شامل نہیں کریں گے تاکہ جواب در جواب کا سلسلہ شروع نہ ہو سکے اور ہم واقعی اصل جواب پا سکیں۔
سینسر شپ کے جواب کی طرف جانے سے پہلے کچھ معروضات دیکھتے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص ایک خاندان کا حصہ ہوتا ہے جس کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ خاندان کے بڑے کے مزاج کے مطابق سبھی افراد اپنی زندگیا ں گزارتے ہیں، جس میں تلخی ، سردی گرمی ہوتی رہتی ہے لیکن مجموعی طور پر کوئی بھی خاندان کو بھلے چھوڑنے کی ہزار باتیں کرے لیکن ایسا عملی طور پر ہونا ممکن نہیں ہوتا اور جیسے تیسے ہمیں اسی خاندان میں اپنے بڑوں کی رضا کے تحت رہنا ہی پڑتا ہے۔ اسی طرح جب کسی بھی مشورے کی ضرورت پڑتی ہے تو سبھی کو نہیں بلایا جاتا بلکہ یہ بڑوں کا فیصلہ ہوتا ہے کہ کس کس کو مشورے میں شامل کیا جائے اور کسے نہیں۔ بات آگے بڑھتی ہے اور مشورے میں ہونے والے فیصلے سے بھی سبھی کو آگاہ نہیں کیا جاتا بلکہ فیصلے کی نوعیت کے حساب سے آگاہی کا بھی فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کسے بتانا ہے اور کسے نہیں بتانا۔ یہ سب ہماری زندگیوں کی عام بات ہے جس میں ہر خاندان کے مطابق تھوڑا بہت اوپر نیچے آگے پیچھے کیا جا سکتا ہے لیکن عمومی صورت حال ایسی ہی ہوتی ہے۔
اب دوسرے منظر کو دیکھتے ہیں ۔ کسی بھی ادارے یا تنظیم کا نیا سربراہ یہ طے کرتا ہے کہ اس کے ماتحت یا ساتھ رہنے والوں نے کیسے رہنا ہے۔ نیا آرمی چیف اپنی مرضی کے کور کمانڈرز لگاتا ہے اور تقریبا تمام کلیدی عہدوں پر اپنی پسند کے افراد کو لگاتا ہے جس کے ساتھ ساتھ کام کرنے کے نئے ضوابط بھی بتائے جاتے ہیں۔اسی طرح اخبارات کی بات کی جائے تو کسی بھی عہدیدار کے من پسند افراد اس کے گرد جمع ہوتے ہیں اور وہ شخص جس حد تک ادارے کی پالیسیوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے وہ اثر انداز ہوتا ہے۔ اس اثر اندازی میں وہ تمام فیصلے اپنی مرضی کے کرتا ہے ۔ کون سی خبریں پہلے صفحے پر لگنی ہیں اور کس خبر کو کتنے کالمی بنانا ہے یہ اس کے متعلقین کے ہاتھ میں ہوتا ہے جس سے دوسروں کو لاکھ اختلاف ہو لیکن بہر حال مرضی تو اسی کی چلنی ہوتی ہے۔
اس طرح ہم اپنی زندگی سے اپنے ارد گرد کے کئی اور مناظر کی بات کر سکتے ہیں ، لیکن اب ہم بنیادی سوال کے جواب کی طرف آتے ہیں۔ الیکشن کے بعد نئی حکومت اپنے قیام کے ساتھ ہی وزرا کا انتخاب کرتی ہے، یہ وزرا اپنے اپنے محکموں اور اداروں کو اپنی پالیسی گائیڈ لائن دیتے ہیں اور تمام محکمے اور ادارے اس گائیڈ لائن پر عمل کرتے ہوئے کام شروع کر تے ہیں سوائے میڈیا کے۔ جس طرح آج کی سیاست میں اپوزیشن کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ اس نے ہر حال میں حکومت کی ہر بات کی مخالفت ہی کرنی ہے اور اس کی ہر پالیسی میں کیڑے نکالنے ہیں ویسے ہی میڈیا کا یہی مطلب نکالا جاتا ہے کہ ان پر کوئی پابندی نہیں عائد ہو سکتی ۔ یہ کسی کی بھی عزت اور پگڑی کو کہیں بھی صرف اور صرف اپنی ریٹنگ کے لیے اچھال سکتے ہیں۔ ان سے نہ کوئی پوچھ سکتا ہے اور نہ یہ کسی پابندی میں آتے ہیں لیکن ایسا بہر حال نہیں ہے ۔ جیسے ہر حکومت یہ فیصلہ کرنے میں آزاد ہوتی ہے کہ کہاں نئی سڑک بنانی ہے، کون سی ٹرین چلانی یا روک دینی ہے ویسے ہی ہر حکومت اس بات میں بھی مکمل آزاد ہوتی ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ کون سی خبر عوام کو جاری کرنی ہے اور کون سی نہیں۔ کون سی خبر کس طرح سے اور کس حد تک جاری کرنی ہے اور کس خبر میں کیا اضافہ یا کمی کرنی ہے۔ حکومت یہ تمام پالیسیاں بنانے میں آزاد اور خودمختار ہوتی ہے کیونکہ وہ عوامی مینڈیٹ لے کر آئی ہوتی ہے، اس کا کام ملک میں صرف نالیاں بنانا نہیں ہوتا بلکہ ہر طرح کی اور ہر سطح کی پالیسی بنانا اور اس پر عمل کروانا بھی اسی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ میڈیا جب حکومتی پالیسیوں کو جو کہ اس کے اپنے بارے میں ہوتی ہیں ،نہیں مانتا تو جواب میں سخت حکومتی روئیے کو سینسر شپ کا نام دے دیا جاتا ہے اور بات بس اتنی سی ہے بلکہ اتنی سادہ ہے جسے یار دوست نجانے کس کس طرح سے استعمال کرتے ہوئے چائے کی پیالیوں میں طوفان اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
میرے خیال سے یہ ڈھونگ اب ختم ہونا چاہیے کہ حکومت میڈیا کو کنٹرول نہیں کر سکتی یا اسے میڈیا کو کنٹرول نہیں کرنا چاہیے۔ آزادی ہمیشہ شتر بے مہار کی طرف ہی جاتی ہے اور بے لگامی کہیں بھی ایک اچھی بات نہیں سمجھی جاتی۔ یا تو میڈیاواقعی ایک اچھے اور ’بی بے ‘ بچے کی طرح خود کو ثابت کرے جو ماں باپ کی آنکھ کا اشارہ سمجھتا ہے، اسے ہر جگہ ڈانٹنے اور پکڑ پکڑ کر بٹھانے کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن بچے اگر ناک میں دم کرنے والے ہوں تو کنٹرول ماں باپ کی مجبوری بن جاتی ہے۔ ابھی تک پاکستانی میڈیا نے اس اعلیٰ ترین اخلاقیات کا مظاہرہ نہیں کیا جہاں اسے ڈھیل دی جائے تو اس کی محب الوطنی اور مذہبیت بھی قائم رہ سکے اور تعمیر معاشرہ میں وہ واقعی حکومت کی معاون ثابت ہو سکے۔ یاد رہے کہ میڈیا بھی ملک کا ایک ادارہ ہے اور حکومت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، تو پھر سینسر شپ کا شور کس لیے ؟ اپنے پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ سوچیں، سمجھیں اور سوال کریں،کہیں کچھ لوگ اپنی دکانداری کے لیے آپ کواستعمال تو نہیں کر رہے اور آپ بے وقوفی میں ان کے آلہ کار تو نہیں رہے۔ اور ہاں سینسر شپ۔۔۔ بات بس اتنی سی ہے اسے اتنا ہی رہنے دیں اور اتنا ہی سمجھیں کہ یہی سچ ہے اور یہی سب کے لیے ایک بہترین راہ بھی ہے۔۔(خرم شہزاد)