بول میں ایک بول والا کی آپ بیتی
تحریر : طیبہ مصطفیٰ زیدی
ایک صحافی کی حیثیت سے ایک اچھا نشریاتی ادرہ،اچھی تنخواہ اور اچھا ماحول ہر صحافی کی خواہش ہوتا ہے جہاں وہ خوشگوار ماحول میں اپنی صحافتی خدمات ادا کرسکے اور کچھ نیا سیکھے اور کچھ اچھا دوسروں کو سکھا سکے جہاں اسے اپنے خیالات کو چابی لگا کر صندوق میں بند نہ رکھنا پڑے اور جہاں اسے سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے کی آزادی ہو اور وہ اس ادارے کے لئے محض ایک ملازم نہ ہو بلکہ ایک اثاثہ ہو جہاں اس کی بات اور اس کے خیالات کو مقدم جان کر اس کی معاشرے اور ملک کی طرف دیانتداری اور وفاداری اور سچی اور صحت مند صحافت کے اصولوں کو پامال کرنے کی کوشش نہ کی جائے،آج میں طیبہ مصطفیٰ ” بول چینل “میں اپنی آپ بیتی کے پلیٹ فارم سے آپ تمام صحافی حضرات اور نوجوان پڑھی لکھی ترقی پسند نسل کے گوش گزار کرنا چاہتی ہوں جو “بول چینل ” سے اپنا صحافتی سفر شروع کرنے کے خواہاں ہیں۔
میں نے اکتوبر 2016 میں بول میں آن لائن اپلائی کیا یعنی درخواست بھیجی جس کے بعد مجھے نومبر کے مہینے میں بول چینل سے ٹیسٹ اور انٹرویو کی کال آئی۔
8 نومبر بول سے بلاوا آنے کے بعد انٹر ویو اور ٹیسٹ کے مرحلے سے گزرنا تھا اور دونوں مرحلوں میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد مجھے نوکری مل گئی، خوبصورت آفس اور اس کی طویل عمارت نے خوب خواب دکھائے اور دل خوشی خوشی اس اچانک ملنے والے نوکری پر اللہ کا صبح شام شکر ادا کرنے لگا۔
پھر کیا ہوا، آگے سنئے آفس جاکر پتہ چلا کے نوکری تو” 12 گھنٹے کی ہےاور کچھ معلوم نہیں کب تک 12 گھنٹے رہے گی تو چھوٹے سے دماغ میں بڑے بڑے گھنٹے بجنا شروع ہوگئے کہ یہ کیا تماشہ ہورہا ہے،آفر لیٹر تو 8 گھنٹے کا سائن کیا ہے اور یہاں تو 12 گھنٹے کی مہم چل رہی ہے تو ایک عدد کنٹرولر صاحب جو عمر میں مجھ سے 2 یا 3 سال بڑے ہونگے ان کی خدمت میں عرض کی کہ سر 12 گھنٹے کی شفٹ کب تک کرنے پڑے گی تو وہ فرمانے لگے کچھ پتہ نہیں جب تک چینل لانچ نہیں ہوجاتا اس وقت تک تو یہی شفٹ ہے اور ساتھ ہی فرمانے لگے”کیوں آپ کو دوران انٹرویو نہیں بتا یا گیا تو میں نے جواب دیا کہ صرف “روٹیشنل شفٹ” کے حوالے سے رہنمائی کی گئی تھی تو اچھا کہ کر سر ہلا دیا۔
اس کے بعد میں نے فورا ایچ آر میں رابطہ کیا اور یہ بات بتانا چاہی کے آفر لیٹر پر 8 گھنٹے کی شفٹ لکھی گئ ہے تو 12 گھنٹے کی شفٹ کیوں؟ تو معصومیت سے فرمانے لگے آپ کو دوران انٹرویو نہیں بتا یا گیا تو میں نے فورا جواب دیا “آپ ہی نے تو انٹرویو لیا تھا اور ایسی کوئی بات مجھے نہیں بتائی گئی”
تو فرمانے لگے ہوسکتا ہے مس ہوگئی ہو لیکن شفٹ تو 12 گھنٹے کی ہی ہے صرف یہی نہیں اس کے بعد ایک اور خبر ملی کہ اس 12 گھنٹے کی شفٹ میں کوئی ہفتہ وار چھٹی بھی نہیں ہاں البتہ آپ کو پیسے ضرور دئے جائیں گے اس دن کی چھٹی نہ کرنے کے، اور اس طرح میں 12 گھنٹے کی شفٹ کرنے لگی اور یہ سوچنے لگی کہ جیسے اتوار کی چھٹی کے پیسے دئے جائیں گے اس طرح ادارہ 12 گھنٹے کی شفٹ کے بھی دے گا کیونکہ آفر لیٹر پر 8 گھنٹے کی شفٹ واضح کی گئی ہے لیکن ایسا کچھ نہ تھا اور ادارہ 12 گھنٹے کام لینے کے بعد صرف 8 گھنٹے کے پیسے دے رہا تھا جو کہ “بد عہدی “تھی ۔
گدھوں کی طرح کام لینا اور ادارے کی لانچنگ کی خاطر ملاذم کی 4 گھنٹے کی اضافی محنت کو قدر کی نگاہ سے بھی نہ دیکھنا کہاں کی شرافت ہے؟ اور اس اضافی محنت کی اجرت دینے کے بجائے یہ جملا ادا کرنا “سب کر رہے ہیں” کہاں کی نمبر ون صحافت ہے؟
صرف یہی نہیں نیوز چینل میں کنٹرولرز کے نام پر مارکیٹنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی تقرریاں جن کا نیوز یا صحافت کی دنیا سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں،صحافت کا جنازہ اگر آپ کو نکلتا دیکھنا ہے تو بول چلے جائیے آپ کو ہر دوسرا پروڈیوسر اور ہر پہلا کنٹرولرمارکیٹنگ یا پھر ایگزیکٹ سے تبادلہ شدہ وہ فرد ملے گا جو شوقیہ طور پر اس شعبے میں آیا ہو اور رٹو طوطے کی طرح جسے چینل کی پالیسی رٹا دی گئی ہو اور وہ نیوز کی کاپی کو ایڈیٹ کرنا تو دور کی بعد نیوز میکنگ اور اس کی درجہ بندی کرنے سے بھی قاصر ہو، نیوز چینل کے نام پر مارکیٹنگ اسٹاف اور آئی ٹی اسٹاف کی نیوز ڈیپارٹمنٹ میں بڑے عہدوں پر تقرریاں اور ان کے زیر نگرانی نیوز چینل چلوانے کو نمبر ون نہیں بلکہ دو نمبری کہا جاتا ہے۔
کوئی پروفیشنلزم نہیں کوئی سکھانے والا نہیں،اگر آپ پہلے سے سیکھے ہوئے ہیں تو اچھی بات ورنہ آپ کو فریش یونیورسٹی گریجویٹس ٹریننگ دیں گے جن کی خود ٹریننگ کوایک مہینہ تک مکمل نہ ہوا ہوگا اور کنٹرولر بھر پور اعتماد کے ساتھ آپ کو ان ننھے منھے لڑکے لڑکیوں کے حوالے کردے گا جن کو خود سکھائے جانے کی ضرورت ہو یا پھر ان افراد کے جو کسی اور چینل سے 3 یا 4 سال کام کر کے آئے ہوں لیکن کیا کام کرکے آئے ہوں اور کیا سیکھ کر یہ خدا جانے۔
اور ایک اور بڑی دلچسپ بات بتانا چاہوں گی پورے کے پورے بول نیوز کی ہیڈ ای ایسی عورت کو بنایا ہوا ہے جو پہلے ایگزیکٹ میں ملازمت کررہی تھیں اور اب ماشاءاللہ سے پورے نیوز چینل کی ہیڈ ہیں،یہ کمال صرف اور صرف بول یا ایگزیکٹ کے ملازمین کو ہی حاصل ہے کہ گھوڑے ہوں یا گدھے سب نمبر ون ہیں اور سب بول والے ہیں۔
ملازمین سے ان کی نوکری یا عہدے سے ہٹ کر کام کروانا یعنی آپ کو اگر نیوز نشر کروانے پر ملازمت دے گئی ہے جسے پروڈیوسر کہتے ہیں تو آپ سے نیوز لکھوائی جائے گی اور آپ شکایت کریں “کہ میری تقرری اس عہدے پر نہیں ہوئی تو آپ کو دو ٹوک بتادیا جائے گا “سب کر رہے ہیں” یعنی اگر سب گدھا بن کر کام کررہے ہیں تو آپ کیوں گھوڑی بننا چاہتی ہیں،ملازمین کے عہدے یا جاب ڈسکرپشن کے خلاف کام کروانا”بد عنوانی” میں آتا ہے اور بول میں اس بدعنوانی کا باجا زورو شور سے بجایا جارہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ گیت بھی چل رہا ہے”وی آر نمبر ون”
خواتین سے آئے روز بد تمیزیاں، نوکری سے نکالے جانے کی دھمکیاں اور اپنے حق کیلئے بولنے کی سزا ”ملازمت پر پکا نہ کرنا” ہے اور میں یہ سب اپنے آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی داستان آپ کو بیان کر رہی ہوں کیونکہ میرا مقصد صرف پیسے کمانا نہ تھا میں ایک اچھے ادارے میں کام کر کے کچھ سیکھنا چاہتی تھی کچھ اچھا کرنا چاہتی تھی اور میری سب سے بڑی کمزوری انسان دوستی اور احترام تھا اور میں ایک باضمیر صحافی تھی، میں چینل میں چلنے والی بد عنوانیوں اور بد عہدیوں پر پہلے ہی گریونس فارم جمع کرواچکی تھی اور شعیب شیخ کو بھی کئی ای میلز کرچکی تھی لیکن کچھ نہ ہوا اور ان بدتمیزیوں میں روز بروزاضافہ ہونے لگا اور 7 اپریل 2017 کو اس نوکری کو فوری طور پرخیر باد کہا جب ایک کنٹرولر نے ساتھی صحافی کے ساتھ بد اخلاقی کی اور سب کے سامنے بےعزت کیا اور نوکری سے نکالنے کی دھمکی دی اور میری اس ساتھی دوست کی حمایت اور بدتمیزی کے بعد بگڑنے والی دوست کی طبیعت کی کنٹرولر کو اطلاع پر شو کاز دے دیا گیا کہ کنٹرولر سے ساتھی دوست کا پوچھا کیسے اور طبیعت کی ناسازی کی بات کیسے کی ۔
یہ پہلا شو کاز تھا جو مجھے میری ہمت اور جسارت دکھائے جانے پر دیا گیا ایک ایسے کنٹرولر کی جانب سے جس کے خلاف میں نے گریونس فارم ادارے میں جمع کروایا تھا اور ادارے میں خواتین صحافیوں کے ساتھ بد تمیزی، اختیارات میں بدعنوانی اور ادارے کی بد عہدیوں کا بھر پور تذکرہ کیا تھا لیکن اس کے باوجود انتظامیہ کو کوئی شرم کوئی حیا نہیں آئی اور میں نے روز بروز بڑھنے والی غنڈہ گردی اور بدعنوانیوں پر فورا استعفیٰ دیتے ہوئے7 اپریل 2017 نوکری سے نجات حاصل کی کیونکہ یہ نیوز چینل نہیں تھا بلکہ غنڈہ گردی کا اکھاڑہ تھا جہاں صرف غنڈہ گردی سے ہی کام چل سکتا تھا اور میں یہ سب کرنا جانتی نہ تھی اور اس بدعنوانی پر دیے گئے استعفیٰ کا بدلہ مجھ سے میرے ڈیوز روک کر کیا گیااورکلیئرنس تک نہیں کی گئی جب کہ سارا حال احوال میں ہمارے اور آپ سب کے بڑے ہی معتبر عامر ضیاء کو سنا چکی تھی لیکن وہ مجبور تھے شاید بہت مجبور۔۔۔ اپنی نوکری کی وجہ سے یا پھر اپنی مصروفیت کی وجہ سے!
تحریر : طیبہ مصطفی زیدی