بلاگ: سابق بول والا
جیسے ہی نیا پاکستان بنا کچھ لوگوں کے چمکتے چہرے بتا رہے تھے کہ آسمان سے چاند ان کی گود میں اتر آیا ہے جبکہ کچھ لوگوں کی آنکھوں سے چھلکتی ہوئی امید کی کرن بتا رہی تھی کہ کچھ نہ کچھ اچھا ہی ہونے والا ہے .اور کیوں نہ ہو ,ایک خواب دیکھا گیا تھا جو آج پورا ہوا ہے ۔۔ ایک خواب شعیب شیخ صاحب نے بھی دیکھا تھا .میڈیا میں انقلاب کا خواب , لاکھوں افراد کو روزگار دینے کا خواب اور ایک کروڑ بچوں کو پڑھانے کا خواب .کہتے ہیں کہ خواب وہ دیکھتے ہیں جن کا ویژن بڑا ہوتا ہے .جو ملک کا بہتر مستقبل چاہتے ہیں جو خلق خدا کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے کے لئے عملی کام کرتے ہیں لیکن یہاں کا منظر کچھ اور کہانی پیش کررہا ہے ۔۔
ہزاروں ملازمین کو نکالا گیا تو گیٹ سے نکلنے والے ٹوٹے دل تو ہزاروں کی تعداد میں تھے جب اپنے اپنے گھروں میں پہنچے تو ٹوٹے دلوں کی تعداد لاکھوں میں چلی گئی.ان کرچی کرچی خوابوں کے ٹکڑے چننے والوں میں تین سالہ مدثر بھی شامل تھا جس کے پاس لفظ تو نہیں تھے مگرباتیں بہت تھیں ۔۔اس کا باپ جیسے ہی گھر آیا تو یہ معمول کے مطابق بھاگا بھاگا آیا مگر پاپا کا موڈ خراب تھا وہ اپنی بے زبانی اور عطا کی گئی عقل کے مطابق ان کے خلاف تقریر کرنے لگ پڑا جنہوں نے اس کے “پا” کو نکالا تھا وہ صرف “پا” ہی بول سکتا تھا مگر لہجے سے بڑا پیغام دینے کی اہلیت ضرور رکھتا تھا ۔۔ مدثر انتقال کر چکا ہے .وہ ایسی بیماری سے نہیں مرا جس کا علاج نہیں ۔۔ بیماری عام سی تھی مگر علاج کے پیسے نہیں تھے .بول نے تنخواہیں روک رکھی تھیں ۔۔ مدثر کی ایک بڑی بہن بھی ہے . پانچ سالہ بچی جب مدثر کے کھلونوں سے کھیلتی ہے تو اس کی بھیگی ہوئی آنکھوں میں تیرتی ہوئی حسرت آنسوؤں کے ساتھ ہی رخسار پہ ڈھلک جاتی ہے .وہ روتی بھی ہے ہنستی بھی ہے , اپنے بھائی سے باتیں بھی کرتی ہے جواب بھی خود کو ڈانٹ بھی دیتی ہے .دوستو کوئی مجھے بتائے یہ دکھ ایک پانچ سالہ بچی کے ہیں ؟ کیا یہ بڑی عمر کی باتیں نہیں لگتیں ؟
بول نے صرف چند ہزار لوگوں کو بے روزگار نہیں کیا ,ان کے بچوں کو تعلیم سے محروم کیا ہے۔۔بول نے ایک کروڑ بچوں کو تعلیم تو نہ دی ایک ننھی بہن سے اس کا بولنے والا کھلونا چھین لیا ۔۔ کہاں سے دو گے اس کا کھلونا. اس کا بھائی. بول سے نکلنے والا عبدالرؤف آج بھی جب گھر جانے سے پہلے اپنی اہلیہ کو فون کرتا ہے کہ آتے ہوئے کیا لاؤں۔۔تو وہ ماں آج بھی کہتی ہے مجھے کچھ نہیں چاہئے بس کہیں سے میرا مدثر لا دو ۔۔ میرے جگر کا ٹکڑا لادو،.مجھے کچھ نہیں چاہئے، بس کوئی میرا لعل واپس کر دے۔۔شعیب صاحب لا کے دے سکتے ہو ایک ماں کا جگر …اس کا مدثر …؟
بول کے ہزاروں ملازمین ایسے ہیں جنہیں میں نہیں جانتا مگر جنہیں میں جانتا ہوں ان میں سے دو ایسے بھی ہیں جن کے گھر اجڑ گئے. ان کی طلاقیں ہو گئیں , ہنستا بستا گھر ویرانے میں بدل گیا .اب جگہ جگہ ان کو کونے میں لگ کے روتے ہوئے دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ بدلاؤ تو آگیا ہے تبدیلی تو آگئی ہے . ہزاروں داستانیں بن گئیں ہزاروں قصے بن گئے مگر کسی کے کان میں جوں تک نہ رینگی .عدالت عظمی’ کے احکامات آگئے ان کا جہاز بنا کے ہوا میں اڑا دیا…ان کے ٹکڑے کر کے دسویں منزل سے نیچے پھینک دئے گئے… .واہ رے ریاست کے اندر ریاست کے بادشاہ ,تمہاری دلیری کو سات سلام ۔۔تمھاری ریاست میں ایک کروڑ بچوں کو پڑھایا جانا تھا ,تم تو ایک کروڑ ننھی منی قبریں بنانے والے نکلے.۔۔ تم نے روزگار دینا تھا ,تم تو ہنستے بستے گھر اجاڑنے والے نکلے .تم نے انقلاب لانا تھا اور تم ۔۔لوگوں کو نفسیاتی مریض بنانے والے نکلے ۔۔
صحافتی اداروں نے ہمیشہ حق کے لئے آواز بلند کی ہے .پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کے لئے ہمیشہ کچھ نہ کچھ مثبت کرنے میں مشہور ہے . حال ہی میں سپریم کورٹ سے بول اور دیگر اداروں کے خلاف احکامات بھی ہوئے مگر شائد وزیر اعظم سے بھی کچھ طاقتیں زیادہ طاقتور ہیں , یہ میری عقل سے باہر ہے شائد آپ کچھ بہتر سمجھیں ۔۔ مجھے نہیں لگتا کہ بول کے سابقہ ملازمیں اتنے طاقتور ہیں کہ وہ بول سے کچھ منوا سکیں،.جب کوئی قانون کی بالادستی نہیں مانتا ،وہ احتجاج کیسے مانے گا۔۔ان کا تو نعرہ ہی یہی ہے کہ خون بہے گا تو نام بنے گا۔مگرجب بات حق کی آتی ہے تو دین یہ سکھاتا ہے کہ اپنا حق حاصل کرو ۔۔ ایسا کرنا ہی پڑے گا ۔۔نکلنا ہی پڑے گا۔۔بات کرنی ہی پڑے گی۔۔آواز دینی ہی پڑے گی۔۔ یہ صحافتی ادارے , لاہور ,پشاور, کوئٹہ ,حیدرآباد پریس کلب کے عہدیداران اور انجمنیں ہمیں ہمارا حق دلوا سکتی ہیں۔۔ان سے گزارش کرنی پڑے گی۔۔انکے آگے ہاتھ جوڑنے پڑیں گے۔۔ان سے کہیں گے کہ اس ظلم سے ہمیں نجات دلوائیں ہماری آواز بنیں ورنہ اگر ہمارا معاشی قتل بند نہ ہوا تو صرف بول کے سامنے نہیں بلکہ ہر چینل کے سامنے اتنی ننھی ننھی قبریں بنیں گی کہ سڑکوں کے رخ موڑ نے پڑ جائیں گے اور کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوگا ۔۔(سابق بول والا۔۔)۔۔
(بلاگر کے خیالات اور تحریر سے ہماری ویب کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)