bicharay field sahafi

بیچارے فیلڈ صحافی

تحریر: فداعدیل

پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کی کوریج کے دوران کنیٹنر کے نیچے آنے سے چینل 5 کی رپورٹر صدف نعیم جاں بحق ہوگئیں۔ یہ بہت ہی افسوسناک واقعہ تھا۔ اس واقعے کے فوری بعد عمران خان کے مخالفین نے خاتون صحافی کی المناک موت کی ذمہ داری “لانگ مارچ” پر یا باالفاظ دیگر عمران خان پر ڈالنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش اب بھی جاری ہے، سوشل میڈیا کی کچھ وڈیوز کے ذریعے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ خاتون رپورٹر کے جاں بحق ہونے کے معاملے پر صدف نعیم کے شوہر محمد نعیم نے کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی کرنے سے جو انکار کیا ہے وہ دباو کے تحت کیا ہے۔ صدف کے شوہر کا تحریری بیان ہے کہ ان کی اہلیہ کی موت حادثاتی تھی۔ محمد نعیم نے اپنے بیان میں کہا کہ میری اہلیہ لانگ مارچ میں ڈیوٹی کے دوران ڈیوائیڈر پر کھڑی تھیں جہاں سے گرنے کے باعث میری اہلیہ کنٹینر کے نیچے آکر جاں بحق ہوگئیں، وہ واقعے پر کوئی قانونی کارروائی نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی لاش کا پوسٹ مارٹم کروانا چاہتے ہیں۔ اس واقعے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش بھی کی گئی۔ اس واقعے کا موازنہ ارشد شریف شہید کے واقعے کے ساتھ بھی کیا گیا، کہا گیا کہ ارشد شریف کی شہادت پر تحریک انصاف کی قیادت نے زیادہ شدت سے آواز اٹھائی کیونکہ وہ ایک بڑے اور نامور صحافی، اینکر اور عمران خان کے بیانئے کے حامی تھے اینکر تھے جبکہ صدف نعیم چونکہ ایک عام رپورٹر تھیں اس لئے پیوندخاک کردی گئیں۔ بعض نامور صحافیوں نے بھی صدف نعیم کی موت پر ٹسوے بہائے، صدف کے بچوں اور لواحقین کی حالت زار کا رونا رویا، کسی نے امداد کا اعلان کرنے کی ضرورت پر زور دیا تو کسی نے امدادی رقم کے اعلان کے بعد یہ رقم بڑھانے کا مطالبہ کیا۔ ایک حکومت نے پہلے 25 لاکھ کا اعلان کیا تو دوسری حکومت نے 50 لاکھ کا۔ اس کے بعد 25 لاکھ والوں نے بھی امداد بڑھاکر 50 لاکھ کردی۔ ان رقوم سے صدف نے واپس نہیں آنا، اس کے بچوں کو ماں دوبارہ نہیں ملنے والی۔ سوال یہ ہے اور آج کے کالم کا مقصد بھی یہی ہے کہ ایک بار پھر یہ سوال اٹھایا جائے کہ کیا صحافی صرف اس کو کہا اور مانا جائے جو سکرین پر نظر آتا ہو؟ بڑا صحافی اس کو مانا جائے جو صحافت کے نام پر پروپیگنڈا کرتا ہو؟ ٹی وی یا اخبار کے بڑے عہدے پر براجمان شخص کو بڑا صحافی مانا جائے یا پھر یوٹیوب چینل پر بیٹھ کر کسی خاص بیانیے کو بار بار بیان کرنے والے کو صحافی کہا جائے؟ مسلہ یہ ہے کہ اس ملک میں اصل صحافی کہیں کھو گیا ہے، صحافیوں کے روپ میں ڈھنڈورا پیٹنے والوں کی بھرمار ہے۔ ایسے نام نہاد صحافیوں کے سوشل میڈیا اکاونٹس چیک کریں، ان کی تحریریں ملاحظہ کریں اور ان کے تجزئیے سنیں۔ پرامپٹر دیکھ دیکھ کر خبریں پڑھنے والے بھی صحافی اور تجزیہ کار ہیں اور کسی شو میں کسی سینئر صحافی سے لکھے ہوئے سوالات کرنے والے بھی یو ٹیوب پر بیٹھ کر صحافت جھاڑ رہے ہیں۔ یہ نام نہاد صحافی کھل کر اعلان نہیں کررہے کہ ہم فلاں فلاں سیاسی جماعت کے کارکن ہیں، ان کے پاس سیاسی جماعتوں کے ممبرشپ کارڈ بھی نہیں ہیں لیکن یہ سارے ہیں پکے سیاسی۔ انویسٹی گیٹو رپورٹرز کہیں دب کر رہ گئے ہیں۔ رپورٹرز بیچارے مالکان کی دی گئی ہدایات کے مطابق تنخواہ حلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ ہدایات بھی ان کو ایڈیٹرز اور بیوروچیفس کے ذریعے ملتی ہیں۔ نشریاتی اور مطبوعاتی اداروں میں رپورٹنگ سیکشن پر شعبہ اشتہارات کا براہ راست غلبہ ہے، خبر لگنے یا نہ لگنے، نشر کرنے یا نہ کرنے کے اشارے مالکان اور شعبہ مارکیٹنگ سے ہوکر آتے ہیں۔ فیلڈ رپورٹر کی خبروں کی بنیاد پر میک اپ زدہ چہرے سکرینوں پر نمودار ہوکر تجزیہ کرتے ہیں اور خود کو بہتر صحافی گردانتے ہیں۔ ایسے میک اپ زدہ چہروں کو نہیں معلوم کہ فیلڈ میں رپورٹر، کیمرہ مین اور فوٹوگرافر پر کیا گزرتی ہے؟ صدف نعیم بھی ایک کم تنخواہ لینے والی رپورٹر تھیں، عمران خان کا وہ زمانہ بھی صدف نے دیکھا ہوگا جب کپتان میڈیا کی آنکھ کا تارا تھا اور آج جب ان سے آنکھیں پھیر لی گئی ہیں تو وہ آنکھ میں کھٹکتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں بطور رپورٹر عمران خان کے جلسے میں جاتا تو سینٹرل نیوز روم سے مجھے اور کیمرہ مین کو باقاعدہ فون آتے کہ خبردار! جلسے میں خالی کرسیاں نہیں دکھانیں۔ دور دراز شہروں میں جلسے سے ایک دن قبل ٹیمیں اور ڈی ایس این جی گاڑیاں بھجوائی جاتیں، ایک روز قبل ہی خان کے جلسے کی تیاریوں پر لائیو بیپرز کروائے جاتے، نیوز پیکجز بنواکر ہر نیوز بلیٹن میں چلائے جاتے، یہاں تک کہ جلسے میں شریک کارکنوں اور ڈی جیز تک کے انٹرویوز چلتے۔ صدف بیچاری نے بھی کسی بریکنگ نیوز کے چکر میں جان گنوادی۔ دفاتر میں بیٹھ کر صحافت کرنے کی اداکاری کرنے والے کیا جانیں کہ فیلڈ رپورٹر کن کن مراحل سے گزر کر “خبر” تلاش کرتا ہے؟ اور پھر اگر آپ کا واسطہ غاصب “بیورو چیپ”، ایڈیٹر یا “چیپ رپورٹر” سے پڑا تو بس سمجھ لیجئے کہ صحافت کی منی یونہی بدنام ہوتی رہے گی۔ فیلڈ صحافیوں کے اوقات کار اور معاوضوں پر آج تک کوئی سنجیدہ غور نہیں کیا گیا، بس سوشل میڈیا پر چیخنے والوں کو ہی صحافی مانا جارہا ہے۔ معلوم نہیں صدف جیسے کتنے رپورٹرز حادثوں کی نذر ہوکر “قتل” ہوتے رہیں گے؟ لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ خود کو صحافی کہلوانے والے سیاسی بہت حد تک کھل بھی گئے ہیں، عام لوگوں کو بھی سمجھ آنے لگی ہے کہ “صحافی” کسی غیر جانبدار مخلوق کو کہا جاتا ہے۔(فدا عدیل)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں