تحریر: خرم علی عمران
ہمیں یعنی اہل پاکستان کو کچھ بھولے بھالے سے اور پالے پالے سے کثرت سے دیگر بے شمار عطا کردہ نعمتوں کی طرح تمام شعبہ ہائے زندگی میں عطا کئے گئے ہیں۔ ہر راہ میں، ہر موڑ پر یہ بھولے ملتے اور ٹکرتے ہیں۔ بھولے دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک نیچرل یا قدرتی طور پر بھولے؛ اور دوسرے وہ بھولے جو بھولا پن اختیار کرکے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تو ہماری گفتگو آج اس دوسری قسم کے بھولو کے بارے میں ہوگی۔
اچھا ان اختیاری بھولو میں پھر دو اقسام ہو جاتی ہیں، بالکل چین ری ایکشن کی ابتداء کی طرح جس میں ایک مرکزہ ٹوٹ کر دو میں تقسیم ہوجاتا ہے، ایسے ہی ہمارے اختیاری بھولوں کو ہم بے چین ری ایکشن کے تحت دو قسموں میں بانٹ سکتے ہیں۔ ایک کبھی کبھار کے اختیاری بھولے، اور دوسرے اپنے بھول پن کیریکٹر میں زیادہ تر وقت ڈوبے رہنے والے بھولے۔ ثانی الذکر طبقہ سیاست میں نمایاں ہیں۔
تو جناب اختیاری بھولوں کی قسم اول یعنی وقتی بھول پن ایک ایسا مرحلہ یا ایسی صورتحال ہے جس سے کیا ہندو کیا مسلم، کیا ایسٹرن یا ویسٹرن، کیا مرد اور کیا زن، سب ہی کبھی نہ کبھی ایک دو بار یا بار بار ضرور گزرتے ہیں؛ اور راہ زندگی میں ایسے کٹھن مقامات ضرور آتے ہیں کہ بھولا بن جانے میں ہی عافیت نظر آتی ہے۔ مثلاً دور طالب علمی میں کسی سخت گیر استاد کے سامنے پیشی کے موقع پر اکثر بھولا بن جانے میں ہی خیر ہوتی ہے۔ یا بچپن، لڑکپن اور اکثر جوانی میں بھی گھر میں امی ابو یا کسی اور بڑے کے سامنے کسی غلطی کے سلسلے میں باز پرس کے موقع پر بھولپن کا ترپ کا اِکّا اکثر آزمانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یا پھر دفتری و کاروباری معاملات میں کبھی باس کے سامنے، کبھی کسی کاروباری سودے کے موقعے پر لوگ بھولے بن کر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔
کبھی کبھی دلچسپ صورتحال یوں پیدا ہوجاتی ہے کہ ہر دو فریق بھولے بن رہے ہوں، پھر لطیفے اور فکاہیہ واقعات بھی جنم لیتے ہیں۔ مثلاً شادی شدہ زندگی میں ہر دو فریق اکثر بھولا پن اختیار کرتے نظر آتے ہیں، مگر زیادہ پرانی ہوجانے والے شادیوں میں کیونکہ دونوں فریق ایک دوسرے کے عیوب و محاسن اپنے ہاتھ کی لکیروں کی طرح سے جان چکے ہوتے ہیں اس لیے یہ حربہ زیادہ کام نہیں آتا۔ ہاں دو چار سال تک ضرور مؤثر رہتا ہے۔
اب آئیے دوسرے قسم کے طویل المیعاد اختیاری بھولوں کی جانب۔ یہ بھی ہر شعبہٴ زندگی میں ملتے ہیں۔ پاگل بن کر پاگل بنانے کے ماہر ہوتے ہیں لیکن ہمارے طبقہٴ سیاست داں میں تو اس فن کے بھیا ایسے ایسے ماہر ہیں کہ ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیئے! حالت اقتدار میں عظیم الشان حماقتیں اور دور رس احمقانہ نتائج کے حامل فیصلے کرکے بعد میں کبھی جواب دہی کے وقت بھولا بن جانا ان کا باکمال وصف ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے چند اصطلاحات بھی پکڑ لی ہیں جنہیں وقتاً فوقتاً، موقعے کی مناسبت سے استعمال کرکے اپنے بھول پن کا ثبوت دیتے رہتے ہیں۔ جیسے ’’سیاق و سباق سے ہٹ کر،‘‘ یا ’’نو کمنٹس‘‘ یا ’’معروضی حالات‘‘ وغیرہ۔
اب تازہ ترین مثال ملاحظہ فرمائیے۔ ہمارے ایک بھولے بھالے سے، پالے پالے سے پرائم منسٹر ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے روایتی بھول پن میں ایک مرتبہ ڈان اخبار کے سائرس المیڈا کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے ڈھکے چھپے سے، بھولے بھالے انداز میں پراسرار خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ ممبئی حملوں میں پاکستان کے ملوث ہونے کے بارے میں کچھ ہلکا پھلکا اشارہ سا دے دیا تھا۔ ارے بھئی یقیناً کوئی بدنیتی نہیں تھی، بس بھولے سے ہیں ناں… تو ہوگیا بھول پن۔ مگر صاحب! آپ انڈین حکومت کی بے مروتی اور شقاوت ملاحظہ کیجیے کہ انہوں نے اور خاص طور پر مودی جی نے اپنے دیرینہ تعلقات کا ذرا لحاظ نہیں کیا اور اس گڑے مردے کو اکھاڑ کر سڑا بسا لاشہ عالمی عدالت میں پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھ آجانے والے انڈین ٹائیگر (نہیں! فلمی نہیں، اصل والا) کلبھوشن کے کیس میں بطور شہادت پیش کردیا۔ اب بتائیے ناں، بھولے میاں کو کیا معلوم تھا کہ ان کی بات اتنے اعلی فورم پر، اتنے اہم مقدمے میں، بطور شہادت پاکستانی کیس کو کمزور کرنے کےلیے استعمال کی جائے گی، ورنہ مجھے یقین ہے کہ بھولے میاں کو ذرا سا بھی اندازہ ہوتا تو مرتے مرجاتے اور گونگے کا گڑ کھالیتے مگر ایسا نہ کہتے کہ آخر ہر پاکستانی کی طرح وہ بھی بہت محبِ وطن ہیں۔
تو میرے دوستو! یہ تھا کچھ عارضی اور مستقل بھولے پن کا مختصر ماجرا، جو کبھی کبھی سب کی طرح راقم بھی اختیار کرتا ہے بلکہ کرنا پڑتا ہے۔ تو بھولوں کے اس چھوٹے سے، حکایت نما بلاگ کے ساتھ اور ان سطور میں بین السطور کہی گئی باتوں پرذرا توجہ دینے کی درخواست کے ساتھ، اور اس دعا کے ساتھ کہ واقعی حقیقی بھولے تو سر آنکھوں پر کہ قابلِ ہمدردی اور توجہ ہوتے ہیں، اختیاری قسم والے دیرپا بھولوں سے خدا ہماری اور ہمارے پیارے وطن کی حفاظت فرمائے، جانِ ناتواں کو محفوظ رکھے اور بچائے خاص طور پر سیاسی بھولوں سے، یہ تحریر اختتام پذیر ہوتی ہے۔)خرم علی عمران)۔۔
نوٹ:عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔علی عمران جونیئر۔۔