cheekhne ki zaroorat hai | imran Junior

بڑا آدمی

تحریر : علی عمران جونیئر

دوستو،بچپن میں جب ہم خاموشی سے بزرگوں کی محفلوںمیں بیٹھ کر خاموشی سے ان کی باتیں ’’ہضم ‘‘ کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے تو ہمیشہ ایک بات ہم سے کبھی ہضم نہیں ہوتی تھی۔۔ محلے کے تمام بزرگ جب کسی ایک کے گھر کے سامنے بیٹھے ہوتے تو اکثر کسی نہ کسی بزرگ کے منہ سے نکل ہی جاتا تھا کہ۔۔ہم جس علاقے کے ہیں وہاں بڑے بڑے لوگ جنم لیتے ہیں۔۔ ہم حیران ہوتے تھے کہ جو بھی جنم لیتا ہے وہ ’’بچہ ‘‘ ہی ہوتا ہے۔۔اتنا چھوٹا سا ہوتا ہے کہ اسے باآسانی گود میں لیاجاسکتا ہے، پھر وہ علاقہ کہاں ہیں جہاں’’بڑے‘‘ جنم لیتے ہیں۔۔ بچپن سے چونکہ کافی کم گو اور شرمیلے ہیں تو کبھی بزرگوں سے یہ سوال کرنے کی ہمت نہیں ہوئی، پھر ہوا یوں کہ وہ سارے بزرگ ایک ایک کر دنیا سے جاتے گئے لیکن ہمارا سوال اپنی جگہ برقرار رہا۔۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی یونیورسٹی کے پروفیسر سے جوتے پالش کرنے ایک بچے نے جوتا پالش کرتے کرتے اچانک ایک سوال پوچھ لیا۔۔ ماسٹر صاحب، کیا میں بھی بڑا آدمی بن سکتا ہوں؟؟ پروفیسر صاحب نے جواب دیا کہ۔۔۔’’دنیا کا ہر شخص بڑا آدمی بن سکتا ہے‘‘ بچے نے اگلا سوال داغ دیا۔۔لیکن کیسے؟؟ پروفیسر نے اپنے بیگ سے چاک نکالا اوربچے کے کھوکھے کی دیوار پر دائیں سے بائیں تین لکریں کھینچ ڈالیں۔۔ پہلی لکیر پر محنت‘ محنت اور محنت لکھا‘دوسری لکیر پر ایمانداری‘ ایمانداری اور ایمانداری لکھا اور تیسری لیکر پر ۔۔صرف ایک لفظ ہنر (Skill)لکھا۔۔بچہ پروفیسر کو چپ چاپ دیکھتا رہا‘ پروفیسر یہ لکھنے کے بعد بچے کی طرف مڑا اور بولا۔۔ترقی کے تین زینے ہوتے ہیں‘پہلا زینہ محنت ہے۔ آپ جو بھی ہیں‘ آپ اگر صبح‘ دوپہر اور شام تین اوقات میں محنت کر سکتے ہیں تو آپ تیس فیصد کامیاب ہو جائیں گے۔ پروفیسر نے کہا ۔۔ہمارے اردگرد موجود نوے فیصد لوگ سست ہیں‘ یہ محنت نہیں کرتے‘ آپ جوں ہی محنت کرتے ہیں آپ نوے فیصد سست لوگوں کی فہرست سے نکل کر دس فیصد محنتی لوگوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے‘ آپ ترقی کے لیے اہل لوگوں میں شمار ہونے لگتے ہیں۔۔اگلا مرحلہ ایمانداری ہوتی ہے۔۔ایمانداری چار عادتوں کا پیکج ہے۔۔وعدے کی پابندی‘ جھوٹ سے نفرت‘ زبان پر قائم رہنا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرلینا۔۔آپ محنت کے بعد ایمانداری کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لو‘ وعدہ کرو تو پورا کرو‘ جھوٹ کسی قیمت پر نہ بولو‘زبان پر ہمیشہ قائم رہو اور ہمیشہ اپنی غلطی‘ کوتاہی اور خامی کا آگے بڑھ کر اعتراف کرو‘تم ایماندار ہو جاؤ گے۔۔کاروبار میں اس ایمانداری کی شرح 50 فیصد ہوتی ہے۔۔آپ پہلا تیس فیصد محنت سے حاصل کرتے ہیں،آپ کو دوسرا پچاس فیصد ایمانداری دیتی ہے۔۔اور رہ گیا 20 فیصد تو یہ 20 فیصد ہنر ہوتا ہے۔۔آپ کا پروفیشنل ازم‘ آپ کی ا سکل اور آپ کا ہنر آپ کو باقی 20 فیصد بھی دے دے گا۔۔آپ سو فیصد کامیاب ہو جاؤ گے۔۔پروفیسر نے بچے کو سمجھایا۔۔لیکن یہ یاد رکھو ہنر‘ پروفیشنل ازم اور اسکل کی شرح صرف 20 فیصد ہے اور یہ 20 فیصد بھی آخر میں آتا ہے‘ آپ کے پاس اگر ہنر کی کمی ہے تو بھی آپ محنت اور ایمانداری سے 80 فیصد کامیاب ہو سکتے ہیں۔لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ بے ایمان اور سست ہوں اور آپ صرف ہنر کے زور پر کامیاب ہو جائیں۔آپ کو محنت ہی سے ا سٹارٹ لینا ہو گا‘ایمانداری کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنانا ہو گا۔۔آخر میں خود کو ہنر مند ثابت کرنا ہوگا۔۔تم ان تین لکیروں پر چلنا شروع کر دو۔۔ تم آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگو گے۔۔ کہتے ہیں سوال کیا کرو، اس سے ذہن کی بند گرہیں کھل جاتی ہیں۔۔یہ واقعہ ایک مزاحیہ لطیفہ بھی ہے اور حقیقت بھی ہے۔ اسلام میں کتے کو نجس مانا گیا ہے اور اس کے لعاب کو نجس العین مانا گیا ہے۔ اگر یہ لعاب کپڑے پر لگ جائے تو کپڑا نجس ہوگا، اور جس گھر میں کتا ہو وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ ایک صاحب کے پاس ایک مولوی صاحب گئے اور دیکھا کہ ایک کتا ان کی بغل میں دبا ہوا تھا، جب بیٹھے تو کتا ان کی گود میں رہا۔ مولوی صاحب نے کہا کہ آپ نے کتا پالا ہے اچھا کیا، مگر انسان کے بچے کی طرح اسے گود میں بٹھانا، پیار کرنا تو اچھا نہیں ۔ اس نے فوراً کہا کہ مولوی صاحب میں کتے کو اس لیے ہر وقت پاس رکھتا ہوں کہ موت سے محفوظ رہوں، آپ کے یہاں کتابوں میں لکھا ہے کہ جس گھر میں کتا ہو، تو فرشتے نہیں آتے۔ جب کتا میرے پاس ہے تو جان نکالنے والا فرشتہ میرے پاس کیسے آئے گا؟ مولوی صاحب نے فرمایا کہ یہ خیال اور استدلال آپ کا غلط ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ کتے بھی مرتے ہیں، موت سے تو کوئی مستثنیٰ نہیں ۔ آپ نے یہ مثل سنی ہوگی ’’جیسی روح ویسے فرشتے‘‘۔ جو فرشتے کتوں کی روح قبض کرتے ہیں وہی فرشتے آپ کی روح بھی نکالیں گے۔ آپ کے پاس وہ فرشتے نہیں آئیں گے جو اچھے لوگوں کے پاس آتے ہیں۔۔ ایک شخص نے اپنی پراڈو قصائی کی دکان کے سامنے کھڑی کی اور ایک کلو گوشت مانگا۔۔اتنے میں ایک 1980 ماڈل کا’’ ڈالہ ‘‘ آ کر رکا اور اس میں سے اترنے والے نے پانچ کلو گوشت، تین کلو کلیجی اور دو دیسی مرغیوں کا آرڈر دیا۔۔پراڈو والا کھڑا رہا اور ڈالے والے کے جانے کا انتظار کرتا رہا۔۔جب وہ چلا گیا تو اس نے قصائی سے پوچھا۔۔ یہ بندہ کون ہے اور کیا کرتا ہے؟؟ قصائی نے کہا۔۔ یہ کوئی کام نہیں کرتا لیکن اس نے تین مال دار بیواؤں سے شادی کر رکھی ہے جن کے شوہر بہت امیر تھے اور بہت مال چھوڑ کر فوت ہوئے۔۔یہ سن کر پراڈو والے نے اپنا آرڈر بڑھا دیا اور دس کلو گوشت، پانچ کلو کلیجی، سات کلو قیمہ لے کر جیسے ہی گھر پہنچا تو بیوی نے پوچھا۔۔ اتنا کچھ اٹھا لائے ہو کس کی دعوت کر رہے ہو؟ پراڈو والا اپنی اہلیہ سے کہنے لگا۔۔ کوئی دعوت نہیں، بس میں اپنے مال کو انجوائے کرنا چاہتا ہوں اس سے پہلے کہ کوئی ڈالے والا آ جائے۔۔واقعہ کی دُم: کچھ لوگوں کے نصیب میں اپنے بُخل کی وجہ سے جمع کرنے کی مُشقت تو ہوتی ہے پر اپنے اوپر خرچ کرنا نصیب نہیں ہوتا۔اپنا پیسہ خود خرچ کرو اس سے پہلے کہ کوئی اور آپ کا پیسہ خرچ کرے۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔کوئی انسان کامل(پرفیکٹ) نہیں ہوتا، کسی سے مفاد ہویا لگاؤتو اس میں خوبیاں ہی خوبیاں نظر آئیں گی، لیکن جو ناپسند ہوتو اس سے بے زاری بھی گی اور اس میں اچھائی نہیں صرف خامیاں ہی نظر آئیں گی۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں