رپورٹ : محسن نقی۔۔
رائیٹر کلب کراچی پاکستان کے سربراہ معروف بچوں کے ادیب ، ڈراما رائیٹر ، ناول نگار ، پبلیشر ، جناب ابن آس محمد نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے تعاون سے بچوں کے ادب پر ایک روزہ سیمینار منعقد کیا ، جس کی صدارت معروف سینیئر صحافی ، شاعر ، کالم نگار اور سابق مدیر ٹوٹ بٹوٹ جناب محمود شام نے کی، رائٹر کلب کراچی پاکستان کی آرگنائزنگ کمیٹی میں جو افراد شامل تھے ان میں محترمہ شاہانہ خٹک ، رخسانہ افضل ، نفیسہ سعید ، ریحانہ اعجاز ، مہرین فاطمہ فتانی اور جناب نادر شاہ ، راحیل قریشی ، نعمان ریاض قابل ذکر ہیں ، اس تقریب کی نظامت کے فرائض رائٹر کلب کراچی پاکستان کے سربراہ جناب ابن آس محمد نے بخوبی انجام دیئے ، انہوں نے اپنی دلکش نظامت سے پوری تقریب کو دلچسپ بنائے رکھا ، تقریب کے آغاز میں جناب حسین احمد نے تلاوت اور جناب نعمان عارف نے نعت پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ، نظامت کار جناب ابن آس محمد نے تقریب کا آغاز کیا اور سب سے پہلے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے صدر جناب احمد شاہ ( ستارہ امتیاز) ، اور انکی پوری ٹیم کا تقریب کے لیئے بھرپور تعاون کرنے پر بہت بہت شکریہ ادا کیا ، اور ساتھ ساتھ انہوں نے صدر محفل جناب محمود شام کا تقریب کی صدارت قبول کرنے پر بھی ان کا بہت بہت شکریہ ادا کیا ، تمام حاضرین کو انہوں نے خوش آمدید کہتے ہوئے فرمایا کہ رائیٹر کلب کراچی پاکستان کی جانب سے آج کی اس تقریب کا مقصد بچوں کے ادب کو پروان چڑھانے کی سنجیدہ کوشش ہے، بچوں کے ادب کے لیئے ہمیں مل بیٹھ کر مکالمے کا آغاز کرنا ہوگا ، بچوں کے ادب کی راہیں متعین کرنی ہیں ، اور سوچنا ہے کہ بچوں کے ادب کو اس عہد میں کہاں لے کر جانا ہے ، ہمیں یہ کوششیں بچوں کے ادب کو پروان چڑھانے کے لیئے مسلسل کرنی ہوگی اور اس میں کامیابی کے لیئے بچوں سے محبت کرنے والے ، آئندہ نسلوں کی درست سمت کا تعین کرنے کی لگن رکھنے والے ، ہر ادیب ، دانشور ، نقاد ، محققین ، سب کو آگے آنا ہو گا ، ہم نے اس کے لیئے رائیٹر کلب کراچی پاکستان سے شمع روشن کر دی ہے ، ہم نہیں بھی ہوں گے تو ہمارے بعد آنے والے لوگ اس روشن شمع کو روشن رکھیں گے ، آج کے سیمینار کا موضوع بھی سوشل میڈیا عہد میں بچوں کے ادب اور رسائل کو درپیش مسائل ” رکھا گیا ہے اور پاکستان بھر سے آئے ہوئے مقررین اس پر اظہارِ خیال کریں گے میں اپنے تمام مہمانوں کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں ، ساتھ یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ یہ میری زندگی کا بچوں کے ادیبوں کے لیئے ، بچوں کے ادب کے لیئے پہلا باضابطہ پروگرام ہے اسے آپ آئندہ کے بہت سے پروگراموں کا اصل نقطہ آغاز بھی کہ سکتے ہیں ، جو دوست ، احباب اس پروگرام کے انعقاد کے لیئے میرے ساتھ کھڑے ہوئے ان کا نام دل پر نقش ہو گیا ہے میں زندگی بھر ان کی محبتوں کو فراموش نہیں کر سکوں گا ، مجھے بہت خوشی ہے کہ آج کی اس تقریب میں بچوں کے ادیب جو مسلسل لکھ رہے ہیں اور اگلی نسل کی آبیاری کے لیئے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں موجود ہیں ، نئے اور منجھے ہوئے تمام اہم قلم کار موجود ہیں ، آپ سب کی آمد پر رائیٹر کلب کراچی پاکستان کی طرف سے بہت بہت شکریہ قبول فرمائیں ، مُجھے جناب محمود شام کی صدارت میں ہونے والی یہ تقریب ہمیشہ یاد رہے گی ، بیشک جناب محمود شام ایک گھنا سایہ دار درخت ہیں ، بچوں کے ادب اور ادیبوں کی سرپرستی میں ہمیشہ نمایاں رہتے ہیں ، بچوں کے ادب کے فروغ کے لیئے آپکی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں جس طرح آپ ہر جونیئرز کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جس سے ان میں مزید کچھ کرنے کا حوصلہ بڑھتا ہے ، آپکی آمد سے یہ بھی ہم سب کو سبق مل رہا ہے کہ نیک مقصد کے لیئے کس طرح کھڑا ہوا جاتا ہے ، آپکی سربراہی میں ہم سب کے حوصلے بڑھ رہے ہیں ، یقیناً ہم اپنی منزل پا لیں گے انشاء اللہ ، اس کے بعد انہوں نے مقررین کو اظہار خیال کی دعوت دی ، آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے ڈائریکٹر جناب شکیل خان نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ بچوں کا یہ عہد تخیل کی اڑان کا بے ، ذوق و شوق کے پر باندھے جانے پہچانے آسمان میں اڑنے کی شدید خواہش کبھی کبھی نئے آسمان کے انکشاف پر بھی تجسس کو اکساتی رہتی ہے ، بچوں کے کہانی کار کو چاہیئے کہ اپنی تخلیق کی نشوونما کرنے والے ان عوامل کو بڑی خوبصورتی کمال فن سے پیش کرے تاکہ علم کے آسمان کو ناپنے کی خواہش کے پروں کو تحریک اور توانائی ملتی رہے ، مزید فرمایا کہ اکیسویں صدی میں نسل نو کی تعلیم و تربیت کے نقائص ہمیں معاشرے کی بگڑتی صورتحال اور عدم استحکام پر منتج ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ، لہذا ایک اہم سماجی زمہ داری کے طور پر آج کے تمام بڑے ادیبوں کو بچوں کا ادب تخلیق کرنے پر متوجہ ہونا چاہیئے ، ان کے بعد جناب اصف مہک ( مدیر ماہ نامہ مہک) نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ چھوٹے شہروں سے شائع ہونے والے رسائل کے مسائل زیادہ ہیں ، پاکستان کے موجودہ حالات کے پیشِ نظر معاشرہ جس طرح سفاکی کا شکار ہو رہا ہے ہمیں سچے ادب اور ادیبوں کی بے حد ضرورت ہے ، جن کی تحاریر نہ صرف معاشرے کی عکاس ہوں بلکہ قلوب میں شعور کی روشنی بڑھا سکیں ، عہد حاضر میں جو بھی حضرات رسائل و جرائد کی اشاعت کو ممکن بنائے ہوئے ہیں ان کے حوصلے کی داد دینی چاہیئے ، ان کے بعد جناب نعمان اعجاز ( ادیب ، ناول نگار) نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ حکومت کی زمہ داری ہے کہ وہ ادب اطفال تخلیق کرنے والوں کی تربیت کرنے کا کوئی پلیٹ فارم فراہم کریں جس پر وہ مسلسل بچوں کے ادب سے جُڑے رہیں اور معاشرے کے سدھار اور نسل نو کی تربیت کے مقصد سے تخلیق ادب اطفال میں مصروف رہیں ، ان کے بعد محترمہ عفت نوید ( افسانہ نگار ، کالم نگار ، ماہر تعلیم) نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ کسی خاندان ، قوم اور ملک کے روشن مستقبل کا انحصار بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت ہی پر ہوتا ہے اور ان کی عمدہ ذہنی تربیت اور شخصیت کی ہمہ جہت و متوازن نشوونما میں ادب ایک مؤثر کردار ادا کرتا ہے ،ان کے بعد جناب عبد الرحیم متقی ( مدیر ماہ نامہ ساتھی) نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ گزشتہ 46 سال سے بچوں کا مقبول رسالہ ماہ نامہ ساتھی نکال رہے ہیں ، اور اس میں ہمارے سب ساتھی رضا کارانہ طور پر کام کرتے ہیں اس میں ہر سال نئے افراد بھی شامل ہوتے ہیں ، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مسائل کا رونا رونے سے بہتر ہے سب مل جل کر بچوں کا ادب بچوں تک پہنچائیں ، ہمیں نسلوں کو تیار کرنے کے لیئے طویل المدت منصوبہ بندی کرنی ہو گی ، اور یہ خواب ادب کے بغیر شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ، ان کے بعد جناب عرفان علی یوسف ( بچوں کے ادیب) نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان سے باہر رہنے والے پاکستانی بچوں کا سب سے بڑا مسئلہ اُردو پڑھنا ہے اُردو تک ان کی رسائی ہی نہیں ہے ان بچوں کو بھی اُردو آنی چاہیئے ، ادیب کو چاہیئے کہ اپنی اُردو کی تصنیفات کو دوسری زبانوں میں بھی منتقل کریں ، ان کے بعد جناب اکمل معروف ( مدیر ماہ نامہ چاند سورج) نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے بچوں کے لیئے چاند سورج کے نام سے جریدہ نکالا جسے بہت مقبولیت ملی ، ہمیں معلوم ہوا کہ پڑھنے والے بچے ابھی موجود ہیں ، مگر افسوس سے یہ بھی کہنا ہے کہ اکیسویں صدی میں بچوں کے ادب کا سرمایہ تشفی بخش نہیں ہے ، یا یوں کہیئے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ، ان کے بعد جناب نوشاد عادل ( بچوں کے ادیب) نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اکیسویں صدی میں انگلی کی جنبش سے سوالات کا جواب تلاش کرنے والے بچے کی ذہانت کا اندازہ لگانا دشوار ہے ، ایسے میں ادب بھی ان کی ذہنی رفتار کا ساتھ دینے والا ہونا چاہیئے ، اگر ادب پڑھانا ہے تو زیادہ دلچسپ اور زیادہ معلوماتی چیزیں اس کے سامنے پیش کرنا ہوں گی ،ان کے بعد محترمہ ڈاکٹر ثناء غوری ( ادیبہ ، اینکر ، کالم نگار) نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں یہاں ان سب ادیبوں کی نمائندگی کر رہی ہوں جو یہ کاوشیں کر رہےہیں ، بچوں کے ادب کے لیئے یہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی ادب تک بچوں کی رسائی آسان بنائ جائے تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ دوسرے ممالک کا بچہ کیا پڑھتا اور سیکھتا ہے ؟ علاوہ ازیں اس میں عالمی علوم و فنون کی دلچسپی پیدا ہو ، قدیم طلسماتی کہانیاں ، جادو پری ، جادو کی چھڑی ، وغیرہ کہانیاں آج کے دور کے بچے کو متاثر نہیں کرتیں ،وہ ہر چیز کو حقیقت کے رنگ میں دیکھ رہا ہے ، انٹرنیٹ نے آج دنیا کو سمیٹ کر صرف ایک کلک کا منتظر بنا دیا ہے اس لیئے ضروری ہے کہ عالمی ادب سے منتخب فن پارے ترجمہ کی صورت میں بچوں تک پہنچائیں ، ان کے بعد جناب فیصل شہزاد ( مدیر بچوں کا اسلام) نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم لکھنے والے لوگ اسٹیج پر کم ہی بول سکتے ہیں ،دل کی یہ بات ہے کہ لفظ مسائل پر بحث نہیں ہونا چاہیئے بلکہ نئے نئے امکانات پر گفتگو ہو ،مزید فرمایا کہ 2014 کے بعد سے اردو کو سوشل میڈیا نے کاندھا دیا ہے ، اُردو کو اس سے فائدہ ہوا ہے ، اور اردو ادب کو آگے پہنچانے میں بھی مدد ملی ہے ، بچوں کی ضروریات و نفسیات کو ذہن میں رکھ کر تخلیق کیا گیا ادب، ادب اطفال یا بچوں کا ادب کہلاتا ہے ، ان کے بعد محترمہ حمیرا اطہر ( بچوں کی ادیبہ ، سابق مدیر کرنیں) نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ محمود شام صاحب کا لگایا ہوا پودا اب چھتناور درخت ہے ، سوشل میڈیا سے پریشانی نہیں ہے ، اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچوں کا ادب پروان چڑھے تو پہلے خود اپنے گھر میں اپنے بچوں کی تربیت کریں ، انہیں خود پڑھائیں ،ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ پہلے تحفوں میں کتابیں دی جاتیں تھیں ، تاکہ بچوں میں کتاب کی اہمیت کا احساس ہو ، اور ان کو کتاب پڑھنے کی عادت ہو ، بچے معاشرے کا اہم حصہ ہیں ،اور ان کی بہتر نشوونما سے ہی مثبت معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے ، ان کے بعد جناب عادل علی (:سماجی کارکن ، نثر نگار) نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے بھی نونہال سے لکھنا شروع کیا تھا ، کتاب اور ادب کے ساتھ چیلنج پہلے بھی تھے اب بھی ہیں ، وقت کے ساتھ تبدیلی کو اپنانا ہوتا ہے ،بچے مستقبل کی قوم ہیں ان کی رہنمائی اور مثبت پرورش ملک اور ریاست کا فرض ہے ، لیکن ان کو با عمل اور با کردار شہری بنانے کے لیئے کتاب اور ادب دو ایسے عناصر ہیں جو ان کو مستقبل میں مفید شہری بنا سکتے ہیں ، بچوں میں کتاب بینی کا فروغ بہت ضروری ہے ، ان کے بعد بھرپور تالیوں کی گونج میں صدر محفل جناب محمود شام ( سابق مدیر ٹوٹ بٹوٹ ، شاعر ، صحافی ، کالم نگار) نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آج یادگار اجتماع ہے، میڈیا سے پہلے بھی دنیا میں ادب چلتا تھا لوگ اخبار کے ایڈیٹرز کو خط لکھا کرتے تھے ، اور اس طرح اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے ، علاقائی زبانوں کو قومی زبان کہنے میں کوئی حرج نہیں ، زبان اظہار کا ایک ذریعہ ہے ، شعرو ادب ہونا چاہیئے ، اُردو ہر زبان کی ترجمانی کرتی ہے ،نصابی کتاب سے ہی زبان کی محبت بچے میں پڑتی ہے ، آج بچوں کے لیئے لکھنے والے موجود ہیں ، کہانیاں ، ڈرامے تخلیق کرنے والے ، بچے، جوان، بچوں کے رسالے نکالنے والے ، اپنی اپنی سرگزشت بیان کر رہے ہیں ،سوشل میڈیا کے چیلنج سے نمٹنے کی کوشش ہو رہی ہے ، رائیٹر کلب کراچی پاکستان ، کی اس کوشش بزم مباحثہ ، مختلف ، متنوع اظہار کا نتیجہ ایک مضبوط نتیجے کی شکل میں نکلے گا ، مُجھے اپنے آٹھویں عشرے میں یہ اطمینان ہو رہا ہے کہ ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے ، نوجوان محنت کر رہے ہیں ،ان کے پاس تخیل ہے ، لکھنے والوں ، مدیروں ،پبلیشروں، کو سمت ملے گی ، آخر میں رائٹر کلب کراچی پاکستان کے سربراہ جناب ابن آس محمد اور ان کی پوری ٹیم کا بہت بہت شکریہ ادا کرنا چاہوں گا ، ملک بھر آئے ہوئے ادیبوں کا بھی بہت بہت شکریہ ، اور تمام حاضرین کی بھی بھرپور شرکت کرنے پر بہت بہت شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ، آپ سب کے لیئے نیک خواہشات ہیں ، بچوں کے ادب سے محبت کیجیئے یہ پاکستان کا مستقبل ہیں ، پاکستان کو مضبوط کرنا ہے تو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیئے بھرپور کوششیں کرنا ہوں گی ، پاکستان زندہ باد ، تقریب میں پاکستان رائٹر کلب کراچی پاکستان کی آرگنائزنگ کمیٹی کے اراکین جن میں شامل محترمہ مہرین فاطمہ فتانی ، نفیسہ سعید ، اور نادر شاہ خان نے جناب محمود شام کو گلدستہ پیش کیا ، ان کے ساتھ رائیٹر کلب کراچی پاکستان کے سربراہ جناب ابن آس محمد نے بھی اپنی اہلیہ محترمہ شاہانہ خٹک کے ساتھ جناب محمود شام کو گلدستہ پیش کیا ، تقریب کے اختتام پر میزبان جناب ابن آس محمد نے تمام مہمانوں اور حاضرین کا تقریب میں بھرپور شرکت کرنے پر بہت بہت شکریہ ادا کیا اور سب کو پر تکلف ریفریشمنٹ کی دعوت دی ۔(محسن نقی)۔۔