آزادی صحافت پر قدغن کا داغ

تحریر: شعیب مختار

سیاسی منظرنامے پر ہونے والی تبدیلیوں کے بعد ریاست مدینہ کے علمبردار اپنے کیے گئے تمام تر دعووں سے یوٹرن لینے کے بعد ناکامی چھپانے کے لیے عرصہ دراز تک خدمات انجام دینے میں کوشاں رہے اسی دورانیے میں میڈیا کو سنسر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور مالی طور پر میڈیا کے تمام اداروں کو ایک سازش کے تحت کمزور کیا گیا جس پر ہزاروں ملازمین کو جبری طور پر بیروزگاری کے دلدل میں بھی دھکیلا گیا کچھ ایسے عناصر بھی سامنے آئے جنہوں خبروں کو مثبت طریقے سے پیش کرنے کے باقاعدہ طور پر حکم نامے جاری کیے وقت کا پہیہ تیزی سے گھومتا رہا اور تبدیلی سرکار ہر وہ ممکن کوشش کرتی رہی جس سے میڈیا کو غلامی کے شکنجے میں ڈالا جاسکے حکومتی کوششوں کے باوجود جب صحافت کے پیشے سے وابستہ اور اس ملک کی فلاح و بہبود کی خاطر سچ کا دامن نہ چھوڑنے والے صحافیوں نے حکومت کے پیروں کی دھول چاٹنے سے سے جب صاف انکار کر دیا اور ریاست مدینہ کے نالائق اعظم کی کارکردگی کا پردہ چاق کرنے لگے تو تبدیلی سرکار نے ایک نئے کلچر کو جنم دیا جس کے پہلے مرحلے میں سینئر صحافی سمیع ابراہیم پر سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے حملہ کیا اور ان پر ایک پروقار تقریب میں تھپڑوں اور گھونسوں کی برسات کر ڈالی چند روز بعد مقامی چینل میں بیٹھے پی ٹی آئی کے رہنما مسرور سیال نے کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز فاران پر حملہ کر دیا جس کے جواب میں صحافتی تنظیموں کے واویلا کرنے اور واقعے کی بھرپور مذمت کرنے پر تبدیلی سرکار نے میڈیا پر ایک نئے ہتھکنڈے کو استعمال کرنے اور خاموش سیاست پالیسی یعنی سنسر شپ پر خاص طور پر زور دیا جس کے زمرے میں سب سے حامد میر کو لایا گیا اور نشریات کے دوران ان کے پروگرام کو خلاف ضابطہ قرار دیتے ہوئے مزید چلنے سے روک دیا گیا اگر پیمرا کی جانب قوانین کے برعکس پروگرام کیا جا رہا تھا تو ایک روز قبل جیو نیوز پر پروگرام سے متعلق چلنے والے پرومو اور ٹیزر پر آخر ایکشن کیوں نہیں لیا گیا کس کے کہنے پر پیمرا نے پروگرام نشر ہونے کے چند منٹ بعد اس پر پابندی عائد کی سینئر اینکر کو اتنا سنسر کیوں کیا گیا کہ ڈان نیوز میں پروگرام میں بیٹھے اس اینکر کےاپنے نہ نشر ہونے والے پروگرام پر گفتگو کرنے سے عین موضوع شروع ہونے سے قبل روک دیا گیا جب اینکر کی جانب سے خود کو گرفتار کرنے کی پیشکش کی گئی اور کسی قسم کے دباو میں آنے سے انکار کیا گیا تو پھر تبدیلی سرکار نے نیا منصوبہ تیار کر لیا چینل اور صحافیوں کا جبری استحصال کرنے اور انہیں ڈرانے دھمکانے کے بجائے آف ایئر پالیسی پر زور دینے کو ضروری سمجھا جس کے تحت ملک بھر میں اب تک نیوز ,کیپٹل نیوز اور 24 نیوز کی نشریات بند کر دی گئیں حکومتی سازشوں نے آزادی صحافت پر قدغن لگانے میں کوئی کثر نہ چھوڑی آخر کب تک تبدیلی سرکار اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کرتی رہے گی سوال یہ ہے کیا یہ سرکار خود پر تنقید کرنے والوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کے بعد میڈیا پر قابض ہونے میں کامیاب ہو سکے گی۔۔

کیا صحافتی تنظیمیں یکجا ہو کر حکومتی پالیسیوں کے خلاف عملی اقدامات اٹھا سکیں گی یا صرف اور صرف ان کے دعوے کاغذی بیانات تک محدود رہیں گے۔(شعیب مختار)۔۔

(مصنف کی تحریرسے عمران جونیئر ڈاٹ کام اوراس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں، علی عمران جونیئر)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں