تحریر: خرم شہزاد
مولانا فضل الرحمان تو خیر سے اسمبلی سے باہر ہیں اور اپنی چالیس سالہ سیاست کی وجہ سے بخوبی واقف ہیں کہ اگر وہ پانچ سال کا یہ وقت خاموشی سے گزار گئے تو پھر وقت انہیں گزار جائے گا اور وہ محبوبہ کے پہلے عشق کی طرح فراموش کر دئیے جائیں گے، ہاں کبھی کبھی کسی سرد شام میں یاد آ گئے تو الگ بات ۔ اک عمر لوگوں میں یہودی سرٹیفکیٹ بانٹنے کی وجہ سے وہ اس یہودی مثال سے بھی بخوبی واقف ہوں گے کہ اگر کوئی موقع نہ ہو تو ایک موقع ایجاد کر لو۔ آج کل ان کے دھرنے اور آزادی مارچ کا ذرا بے رحمی سے جائزہ لیا جائے تو ہمیں یہ سب کسی موقع کی غیر موجودگی میں ایک ایجاد موقع نظر آتا ہے، لیکن خیر یہ سب تو سیاسی باتیں ہیں جن کا میڈیا سے کوئی تعلق نہیں۔ میڈیا سے دھرنے اور آزادی مارچ کا صرف اس قدر تعلق ہے کہ مولانا کا یہ اعلان میڈیا کو اپنے زخم یاد دلانے کا بھی ایک سبب ہے کہ مولانا ایک ایسی حکومت کے خلاف آزادی مارچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس نے انہیں یعنی میڈیا کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ بہت اندر کی خبریں رکھنے والے صحافی اور باخبر صحافیوں کے جھتے رکھنے والے میڈیا ہاوسز کیا اس بات سے ناواقف ہیں کہ مولانا کا یہ دھرنا اور آزادی مارچ کس قدر کامیاب یا ناکام ہو گا؟ اگر وہ واقف ہیں تو پھر بھی سارا دن اور پوری رات ہر ٹاک شو کا موضوع صرف دھرنا اور آزادی مارچ کیوں ہے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر میڈیا ننھا منا کاکا ہے اور دھرنے کے بارے ابھی کوئی اندازہ نہیں لگا پا رہا تو پھر دن رات اپنے پروگرامز سے ماحول بنانے کے لیے کیوں کوشاں ہے؟ کیا یہ سب حکومت کو دباو میں لانے کی کوئی کوشش تو نہیں؟ وزیر ریلوے ہو کہ مواصلات کا وزیر، امور خارجہ کی پریس کانفرنس ہو یا کہیں لنگر کا افتتاح، ہمارے کیمرہ اور مائیک والے بھائیوں کے پاس پہلا سوال مولانا کے دھرنے کے متعلق ہی ہوتا ہے کیونکہ ان کا کہنا اور ماننا ہے کہ عوام اس دھرنے کے بارے جاننا چاہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا جاننا چاہتی ہے؟ انہی کیمرے اور مائیک والوں سے سوال کیا جائے کہ بتاو عوام کیا جاننا چاہتی ہے؟ کیا ابھی تک مولانا نے ایجنڈے کا اعلان کر دیا ہے ، اگر کر دیا ہے تو عوام کو بتا دیں آپ لوگ خود ہی، بار بار دوسروں سے سوال کرنے کی کیا وجہ ؟ اگر مولانا نے ایجنڈے کا اعلان نہیں کیا تو کوئی بھلا کیسے بتا سکتا ہے کہ دھرنے کا موضوع کیا ہوگا؟ عوام کے نام پر سیاست دانوں کی طرح اپنی دکان چمکانے والے میڈیا سے کوئی یہ تو پوچھے کہ اچھا جی، عوام جاننا چاہتی ہے،مولانا نے بتا دیااور وہ سب عوام کو بھی بتا دیا گیا ہے اب پھر؟ اس پھر کے بعد کسی کے پاس کوئی جواب نہیں کہ کیا؟ یعنی کہ ایک تماشا لگا ہوا ہے اور میڈیا اس تماشا گاہ کا کرایہ وصول کرنے میں لگا ہوا ہے۔
اس تمام صورت حال سے پرے جب یہ دھرنا ہو جائے گا یا نہیں ہو گا لیکن کچھ دنوں کے بعد جب تمام میڈیا والوں کو چار دن اور کچھ نہ ملے گا تو وہ پرانی فائلوں سے گرد جھاڑتے ہوئے ایک بار پھر حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے کی کوشش کریں کہ لوگو! ہم ایک بار پھر حکومت سے پوچھتے ہیں کہ کشمیر پر اس نے اب تک کیا کچھ کیا ہے؟ کرفیو کو اتنے دن گزر گئے ہیں اور ہماری حکومت مکمل ناکام رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ معیشت، امور خارجہ، ترقی، کرپشن، مہنگائی کے بارے کیا ایک لفظ بھی آج کل آپ کو سنائی دے رہا ہے تو بتائیے؟ یعنی بالفاظ دیگر آج کے دن پاکستان اور پاکستانیوں کا مسئلہ صرف اور صرف مولانا کا دھرنا ہے لیکن اس مسئلے میں مسئلہ کیا ہے یہ نہ تو خود عوام کو پتہ ہے اور نہ کوئی انہیں بتا رہا ہے کہ یہ مسئلہ کیوں اور کیسے ان کا مسئلہ بن چکا ہے؟ حیرت ہوتی ہے کہ ٹی وی اسکرینوں کے سامنے بیٹھے لوگوں کو آج کسی کشمیر اور کشمیری کی کوئی فکر نہیں، کوئی شخص نہ تو مہنگائی کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے نہ مہنگائی کی وجہ سے اس کا جینا مشکل ہوا ہے کیونکہ آج میڈیا کے مطابق اس کا مسئلہ مہنگائی نہیں مولانا ہے۔ آج کرپشن پر بات کرنے کا وقت نہیں ہے، یہودی سازشوں کو بھاڑ میں ڈالو اور معیشت گئی تیل لینے کیونکہ ہماری فکروں کا محور صرف اور صرف مولانا کا دھرنا ہے۔
صرف ایک شاپر مردہ مینڈک ملنے کے بعد پورا سوشل میڈیا ٹرٹرانے لگا تھا اور ایک دھرنے کے اعلان سے بعد الیکٹرانک میڈیا کے پاس رپورٹنگ اور گفتگو کے لیے کچھ نہیں بچا ۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا ایسے ہم اپنے قومی مفادات پر دوسرے ممالک کو قائل کریں گے ؟ کیا ہماری یہی سنجیدگی ہمارے مسائل کے حل نہ ہونے کا ایک سبب بھی ہے؟ سوال تو بہت سے ہیں، دھرنے کے بعد ہر ایک کو پرانے حساب یاد آنے لگیں گے لیکن میرا صرف ایک سوال ہے کہ آج جب کشمیر، کرپشن، مہنگائی، ظلم، پولیس گردی، معیشت سمیت ہزاروں مسائل میڈیا کے لیے مسائل کا درجہ نہیں رکھتے تو آنے والے کل میں جب آپ کے پاس فرصت ہوگی اور آپ سوال کرنے لگیں گے حساب مانگنے لگیں گے تو کوئی بھلا کیوں آپ کو حساب دے گا؟ اور اہل اقتدار کا حساب نہ دینا معاشرے کے لیے کس قدر خطرناک ہے کیا اس کا کسی کو کوئی اندازہ بھی ہے؟(خرم شہزاد)۔۔
(مصنف کی تحریر سے عمران جونیئرڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کامتفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)