تحریر : راؤمحمد جمیل
کیا اب اخبارات کو خبروں کی ضرورت نہیں رہی ۔۔کیا بارٹر ۔ کٹ ریٹ اور ٹھیکے پر ملنے والے سستے اشتہارات ہی اخبار اور قارئین کےلئے کافی ہیں کیا قارئین عامل باوا ۔۔ مضافاتی علاقوں میں شروع کئے جانےوالے تعمیراتی پروجیکٹس کے اشتہارات کو ہی خبر سمجھتے ہیں اور خوشی خوشی اخبار خرید کر ان اشتہارات کا مطالعہ کرتے ہیں وہ اشتہارات جن کا 99 فیصد قارئین سے کوئی تعلق ہی نہیں!! نہیں جناب ایسا بالکل نہیں ہے ۔۔ دنیا بھر میں روزانہ اٹھارہ لاکھ سے زائد اخبارات شائع ہوتے ہیں ۔۔اور یہ تمام اپنے قارئین کو خبرکی فراہمی کا زریعہ ہیں ۔۔ اس کےلئے ان اخبارات میں رپورٹرز بھی ہیں اور ادارتی عملہ بھی ۔۔ نیوز ایجنسیز کی خدمات بھی انہیں حاصل ہیں اور مانیٹرنگ کا وسیع نیٹ ورک بھی ۔۔ اشتہارات یقینا اخبار کی لائف لائن ہیں ۔۔ لیکن پہلے خبر اور پھر اشتہار ۔۔ دنیا بھر کے اخبارات میں یہی اصول لاگو ہے ۔۔ کیونکہ اگر خبر ہی نہیں ہوگی تو اخبار کس طرح مارکیٹ کیا جاسکے گا ۔۔ قومی اخبار کے قارئین بھی خبر پڑھنا چاہتے ہیں ۔۔ اس کی تخلیقی سرخیوں پر سارا دن بحث کرنا چاہتے ہیں ۔۔ ایک منظم سازش کے تحت قومی اخبار کی آکاش بیلوں نے اس تاثر کو بتدریج فروغ دینا شروع کیا کہ قومی اخبار کو اب خبروں کی ضرورت نہیں رہی ۔۔ صرف اشتہار سے ہی قومی اخبار کو چلایا جاسکتا ہے۔۔ اشتہارات بھی تیسرے درجے کے ۔۔اس مشن کی تکمیل کےلئے قومی اخبار سے رپورٹرز کی چھٹی کروائی گئی ۔۔ یا ایک آدھ جو رپورٹر ہیں ۔۔ ان کی نام کے ساتھ خبروں کی اشاعت پر پابندی لگوائی گئی ۔۔۔ ان کی خبروں کو ردی کی ٹوکری کی نذرکرنا معمول بنالیا گیا ۔۔حیرت انگیز طور پر قومی اخبار میں صرف کرائم رپورٹر کےعلاوہ کسی رپورٹر کو کام کی اجازت ہی نہیں ۔۔۔ نہ ہی ڈیسک پر کوئی سب ایڈیٹرز ۔۔نہ ہی کسی نیوز ایجنسی کی سروس سے استفادہ کیا جاتاہے ۔۔ اس طرح قومی اخبار حیرت انگیز طور پر دنیا کا واحد اخبار بن گیا ہے جہاں خبر کی کوئی سورس ہی نہیں ہےآج عالم یہ ہے کہ قومی اخبار سے اہم اور تحقیقاتی خبریں ہی غائب ہوگئی ۔۔ پھرسوال یہ ہے کہ خبریں آتی کہاں سے ہیں … ؟ رات کو بڑی محنت سے پاکستان بھر میں تیار کئے جانے والے بڑے اخبارات کی خبروں کو جو ظاہر ہے صبح کے حساب سےتیار کی جاتی ہیں انہیں اٹھاکر من وعن ان ہی سرخیوں کے ساتھ قومی اخبار کی زینت بنادیا جاتا ہے ۔۔ اللہ اللہ خیرصلا ۔۔۔اس کام کےلئے نہ کسی ایڈیٹر کی ضرورت ۔۔نہ رپورٹر کی اور نہ ہی سب ایڈیٹر کی ۔۔ ۔۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ موقر اخبارات میں شائع ہونے والی ان خبروں کی سرخیوں اور لے آوٹ کو بھی ایسا مبہم اور عجلت میں بنایا جاتا ہے کہ قومی اخبار کے قاری جو اب لاکھوں سے سکڑ کر چند سو تک رہ گئے ہیں ۔۔ سرپیٹ کر رہ جاتے ہیں ۔۔۔یہ الزامات نہیں ۔۔ حقائق ہیں ۔۔ ان کی صداقت قومی اخبار کی گزشتہ کچھ ماہ کی اشاعتوں کی کاپیوں کو دیکھ قارئین خود کرسکتے ہیں ۔۔۔الیاس شاکر صاحب نے پاکستان میں سرخیوں اور خبروں کے نئے ٹرینڈ متعارف کرائے ۔۔۔ صف اول کی نیوز ایجنسیوں کی خدمات حاصل کیں ۔۔ درجنوں رپورٹر رکھے گئے ۔۔ وسیع وعریض نیوز ڈیسک کا اہتمام کیا گیا ۔۔خبر کے اندر خبر کیا ہوتی ہے ۔۔ قارئین کو اس کا چسکا لگایا گیا ۔۔خبر کو بامعنی اور پر اثربنانے کےلئے دوکالم کی سرخی کے اوپر مصرعے لگائے ۔۔ خبر کی مناسبت سے انگریزی کے جملے کسے گئے ۔۔ اس سے خبر کو چارچاند لگ گئے ۔۔ الیاس شاکر صاحب کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے پاکستان میں پہلی مرتبہ لیڈ کے اندر ڈیک متعارف کرایا ۔۔ بعد میں سرخیوں کے ان تمام ٹرینڈز کو پاکستان کے صف اول کے اخبارات نے کاپی کیا ۔۔ کیونکہ ان اخبارات کے ایڈیٹرحضرات جانتے تھے کہ جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے ۔۔ لیکن یہ ماضی کی باتیں ہیں ۔۔اب نوآموزمالکان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ اخبار سے خبر ہی غائب ہوگئی ہے ۔۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں پتہ ہی نہیں کہ خبر ہوتی کیا ہے اور انہیں کس طرح سے چونا لگایا جارہا ہے ۔۔ سرکاری ٹینڈروں کے اشتہارات کا ترجمہ کرنے کے تجربے کے حامل نام نہاد ایڈیٹر اپنے معمولی مفادات کےلئے انہیں کس طرح بے وقوف بنا ر ہے ہیں ۔۔ ان نوجوانوں کو اس کا علم ہی نہیں ۔۔ اور اگر علم ہے بھی تو بوجوہ خاموشی ہے ۔۔کبھی قومی اخبار کی لیڈ میں ڈیک بنایا جاتا تھا ۔۔ اب موصوف دوکالم کی سرخی ڈبل ڈیک میں بنارہے ۔۔جو کہ صحافتی لحاظ سے صریحا بدنیتی اور کام چوری کی مثال ہے ۔ ۔ڈبل ڈیک کی دوکالم کی سرخی کی سائنس یہ ہے کہ خبر کی شروع کی دولائنیں کو کاپی پیسٹ کرکے اسے دوڈیک کی سرخی میں تبدیل کردیا جاتا ہے ۔۔ وہ سرخی جس کے لئے کبھی شاکر صاحب بے قرار رہتے تھے ۔۔ گھنٹوں بحث کرتے تھے ۔۔ سرخی نکلوانے کے مقابلے کرواتے تھے ۔۔ ان کا کہنا تھا کہ سرخی تو فن ہی کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ بامعنی پیغام دینے کا نام ہے ۔۔خبر کی سرخی نکالنا اور سرخی جمانا دو الگ چیزیں ہیں سرخی نکالنے کو تو کوئی عام آدمی بھی خبر سے ایک جملہ لے کراسے سرخی کا نام دے سکتا ہے لیکن سرخی جمانے کاآسان مطلب یہ ہے کہ آپ نے بقرعید پر یہ جملہ دیکھا ہوگا ’’گوشت آپ کا ذائقہ ہمارا‘‘بالکل اسی طرح سرخی جمانے کا مطلب ہے ’’خبرآپ کی سرخی ہماری‘‘۔۔۔۔ اخبار کا یہ جادوگر چند سیکنڈ میں ڈبل ڈیکر سرخی بناکر بڑا تیر مارلیتا ہے ۔۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ شعبہ صحافت میں ڈبل ڈیک کی سرخی کو ایک گالی تصور کیا جاتا ہے ۔۔اس سے ایڈیٹر کی کام چوری اور تساہل کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کیونکہ اس میں آپ کو کچھ کرنا نہیں ہوتا ۔۔ خبر کو من وعن پیسٹ کرکے جوڑدینا ہوتا ہے ۔۔یہ کام تو دفتر کا چپراسی بھی بہ خوبی کرسکتا ہے ۔۔ پھر کسی کے نام کے ساتھ ایڈیٹر لکھنا کیا معنی رکھتا ہے ۔۔سبنگ کا کیا مقصد ہے ۔۔۔ ایڈیٹنگ کا کیا حاصل ہے ۔۔۔۔قومی اخبار کی سرخیوں کی کیچ لائنیں کسی زمانے میں اخبار کی جان ہوا کرتی تھیں ۔۔ لوگ خبر سے زیادہ ان کیچ لائنوں پر بحث کرتے تھے۔۔ انہیں انجوائے کرتے تھے ۔۔۔ دن بھر یہ کیچ لائنیں ہرخاص وعام میں موضوع بحث رہا کرتی تھیں ۔۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے ان ہی کیچ لائنوں پر ایک دفعہ شاکر صاحب سے بھری محفل میں پوچھا تھا کہ شاکر صاحب آپ یہ اتنی جُوسی ہیڈلائنز کہاں سے لاتے ہیں ۔۔ اس پر شاکر صاحب کا جواب تھا کہ کم وسائل اور آمدن نہ ہونے کے باوجود وہ اخبار کے ادارتی عملے پرخاص توجہ دیتے ہیں ۔۔ ان کے پاس صحافیوں کی ایک بھرپور ٹیم ہے جو روز صبح ایسے ایسے تخلیقی کام کرتی ہے۔۔ وہ اخبار کو ایک گلدستے کا نام دیتے تھے ۔۔ جس کا ہر پھول اپنی الگ خوشبو رکھتا ہے بے شک اخبار سرخیوں سے ہی بکتا ہے۔۔ اگر کوئی کنج ذہن ۔۔ فاترالعقل ۔۔ اور بے وقوف یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اخبار صرف اشتہارات کا نام ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس اخبار کا “جانی دشمن ” ہے اور اسے مارنا چاہتا ہے ۔۔پاکستان میں اخباری دنیا کی ایک بہت بڑی شخصیت ضیاشاہد صاحب تھے ۔۔ ان کا اخبار خبریں ان کے کام کی مثال تھا ۔۔ مرحوم ضیا شاہد کا کہناتھا کہ انہیں کچھ نہیں آتا ۔۔ نہ بزنس کرنا ۔۔ نہ اشتہار لینا ۔۔ نہ کوئی اور کام ۔۔ بس انہیں سرخیاں نکالنی آتی ہیں ۔۔بقول مرحوم ضیا شاہد کے سرخیاں نکالنے کے فن کی ہی بدولت انہوں نے لاہور کی سب سے اونچی عمارت بنائی ۔۔ یعنی لاہور میں کسی زمانے میں روزنامہ خبریں کے دفتر کی عمارت سب سے قیمتی اورعالی شان تھی قومی اخبار سے وابستگی میری ہی نہیں مجھ جیسے درجنوں صحافیوں کےلئے باعث اعزاز رہی ہے ۔۔ یہ سیکڑوں صحافیوں کی عملی اور بنیادی درسگاہ رہا ہے ۔۔ اس تحریر کا مقصد یقینا کسی کی دل آزاری نہیں ۔۔ اس کامقصد اصلاح احوال ہے ۔۔قومی اخبار کی ذمہ داری جن ناتواں کندھوں پر ہے ۔۔ ان کندھوں کو مضبوط ہونے کی ضرورت ہے ۔۔ اس کےلئے بچگانہ اور احمقانہ پالیسیوں کو ترک کرنا پڑے گا ۔ چھوٹے چھوٹے وقتی مفادات کو پس پشت ڈال کر درست سمت میں آگے بڑھنا ہوگا ۔۔ اور ماضی کی طرح منجھے ہوئے تجربہ کار اعلیٰ اور پروفیشنل معماروں کی خدمات حاصل کرنا ہونگی اسی طرح قومی اخبار کی عظمت رفتہ کو ایک بار پھر بحال کیا جاسکتا ہے۔ اور یہی مجھ سمیت اس اخبار سے بے لوث محبت کرنے والوں کی دلی خواہش ہے۔۔(راؤمحمد جمیل)۔۔