تحریر: سید عارف مصطفی
حریت فکر کی شمع بجھی جاتی ہے
خبر کی آزادی خواب ہوئی جاتی ہے
مانو سچ وہی ہےجو طاقت نے کہا ہے
زندگی ورنہ ، عذاب ہوئی جاتی ہے
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خود کو جمہوری حکومت کہلانے کا شوق بھی رکھا جائے مگر آزادیء اظہار کی راہ میں اشتہارات کی بندش کا بارود بھی بچھائے رکھا جائے ۔۔۔۔ لیکن یہ آج بھی ہو رہا ہے اور بڑے شد و مد سے ہورہا ہے ۔۔۔۔ میڈیا انڈسٹری اس وقت ایک بڑے بحران سے دوچار ہے جسکی بڑی وجہ حکومتی اشتہارات کی مد میں رکی ہوئی خطیر واجب الاداء رقوم ہیں جسکے باعث اخبارات و رسائل اور چینلوں کی معاشی حالت روز بروز ابتر ہوتی جارہی ہے اور اس کی وجہ سے اکثر اداروں میں ملازمین کی چھانٹیوں کا عمل کب کا شروع ہوچکا اور بہت سے صحافیوں کے گھروں میں چولہے بجھنے کی نوبت آچکی ۔۔۔ میڈیا خصوصآً پرنٹ میڈیا والے دوہری مشکل میں ہیں کیونکہ گھر گھر موجود انٹرنیٹ اور موبائل پہ بریکنگ نیوز اور اشتہرات والے میسیجز کی بھرمار نے تو اخبارات کی سرکولیشن کو تو پہلے ہی ہلا کے رکھدیا ہے اب ایسے میں انہیں سرکاری اشتہارات کی عدم اددائیگی نے انکے لیئے اپنے اداروں کو چلانا مشکل سے مشکل تر کردیا ہے۔۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ میڈیا کی آزادی کے پرچارکوں کا یہ اقتداری دور بڑا ہی عجیب سا ہے کیونکہ یہ سمجھ میں نہیں آرہا اور دریں حالات یہ کہے بنا چارہ نہیں کہ تبدیلی نہیں محض تبدیلی کے دعوے کرنے والے راج سنگھاسن پہ آ براجے ہیں ۔۔۔ کیونکہ اگر تبدیلی کو ملکی تعمیر و ترقی اور آزادیء فکر کے ذریعےسماج کی بہتری کے لیئے آنا تھا تو وہ ہنوز ابھی دور تک آتی نظر نہیں آرہی ۔۔۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جمہوریت جمہوریت کی گردان کرنے والوں کے اس دور میں جمہوری آزادی کی سب سے بڑی علامت اور جمہوریت کی بقاء کے لیئے سب سے متحرک طبقہ یعنی میڈیا ہی اس وقت سخت مشکلات کا شکار بنادیا گیا ہے یعنی ریاست کا چوتھا ستون یعنی میڈیا اس وقت سخت گرداب میں ہے ۔۔۔ یہ سب آمرانہ اقدامات کرتے ہوئے نجانے یہ سچائی کیوں بھلادی جاتی ہے کہ جمہوریت کو جب بھی کبھی ضرب لگی ہے یہی ادارے اسکا ہراول دستہ بنکے سڑکوں پہ آئے ہیں اور انہی کی احتجاجی مہمات سے بعد میں بڑی بڑی سیاسی تحریکوں نے جنم لیا ہے اور آمر کا بازو مروڑنے میں کامیابی حاصل کی ہے-
میڈیا کے اس حالیہ معاشی بحران کی ایک اور وجہ بھی ہے جسکو چند روز قبل حکومت سندھ کی طرف سے جاری اس خبر کی روشنی میں بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ وہاں پچاس کے لگ بھگ ایسے اخبارات کا سراغ لگایا گیا ہے کہ جنکا عملی طور پہ کہیں بھی وجود نہیں ہے لیکن جو منسٹڑی آف انفارمیشن کے کارپردازان کی ملی بھگت سے محض نمائشی صفحات یعنی ڈمی جمع کراکے ہی اشتہارات کی مد میں خطیر فنڈز ہڑپ کرتے چلے آرہے ہیں ۔۔۔ اگر اسی طرح سارے ملک میں تحقیق و تفتیش کی جائے تو یہی احوال باقی تینوں صوبوں میں بھی ہوگا اور یوں عوام کے خون پسینے کی کمائی سے سینکڑوں جعلی اخبارات کے جعلساز مالکان اور انکے سرپرست چند سرکاری اہلکاران جوڑ داد عیش دے رہے ہیں جبکہ اطلاع ، ابلاغ اور آگہی و تربیت کی حقیقی ذمہ داریاں نبھانے والے اصلی اخبارات کو اشتہارات کی مد میں ملنے والی رقم کا ایک بڑا حصہ ان حرامخوروں کی تجوریوں میں چلا جاتا ہے- اور یہ وہ حقیقت ہے جو ہرگز کسی سے ڈھکی چھپی ہوئی نہیں ہے-
یہاں یہ کہاجائے تو ہرگز بیجا نہ ہوگا کہ میڈیا کا بازو مروڑنے کے لیئے سرکاری اشتہارات کو پریشر لیور کے طور پہ استعمال کیا جا رہا ہے اور اس وقت عالم یہ ہے کہ کئی نشریاتی و صحافتی ادارے سرکاری اشتہارات کی ادائیگیوں کو ترسائے جارہے ہیں اور حکومت اس مد میں انکے اربوں کے واجبات دبائے بیٹھی ہے جسکے باعث اس وقت میڈیا انڈسٹری بہت بڑے بحران کا شکار ہوچکی ہے ۔۔ کثیر ملازمین والے ادارے و اخبارات جیسے جنگ اور امت وغیرہ اس سلوک کا خاص طور پہ نشانہ بنے ہوئے ہیں اور اب یہ عالم ہے کہ ان اداروں کے ملازمین کو ایک عرصے سے انکی تنخواہوں کی بروقت ادائیگی بھی مشکل ہوچلی ہے ۔۔۔ اس ضمن میں میڈیا مالکان اور متعدد ملازمین نے عدالتوں کے دروازے بھی کھٹکھٹائے ہیں لیکن عدلیہ کی جانب سے بھی اس صورتحال کی بہتری کے لیئے کوئی بڑا عملی قدم ابھی تک نہیں اٹھایا گیا اور لے دے کے سارا زور میڈیا کے مالکان کو ڈانٹنے اور گھرکنے پہ لگادیا گیا ہے جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ عدلیہ اس فسوسناک صورتحال کی وجوہات کا جائزہ لے اور اسکے تدارک کے لیئے سرکاری اشتہارات کی جلد ادائیگی کے لیئے حکومت کو مجبور کرے کہ اسکے بغیر آزادیء صحافت کی دعویداری کی حقیقت ایک بڑے ڈھونگ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔(سید عارف مصطفیٰ)