آگے کی نہیں گھر کی سوچ

تحریر:  ناکام صحافی

صحافیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی باتوں کا بتنگڑ بنادیتے ہیں ہوتا معمولی سا ہے لیکن یہ مرچ مصالحہ لگا کر پورا فسانہ ہی گھڑ لیتے ہیں اب اس میں کتنی صداقت ہے یہ تو ہم سب جانتے ہی ہیں لوگوں کاکیا ہے وہ تو بولتے رہتے ہیں ایسا بولنے والوں کو آج اپنے اندر کا دکھ بھی بتاتے ہیں اور وہ سچ دکھاتے ہیں جو انہوں نے دیکھا نہیں یا دکھایا نہیں گیا۔۔ بقول آپ کے مرچ مصالحہ لگانے والوں کے ساتھ کس طرح ہاتھ ہوتا ہے اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کبھی ہمیں بھاری بھاری تنخواہوں اور مراعات کا جھانسہ دے کر بیوقوف بنایا جاتا ہے اور کبھی دوسرے شہر میں بسانے کا سبز خواب دکھا کر ہمارے مستقبل سے کھیلا جاتا ہے ۔۔

“آگے کی سوچ “کا نعرہ لگانے والوں نے بالکل ٹھیک کیا، ہم لوگ ہیں ہی اسی قابل وہ نعرہ لگاتے رہے آگے کی سوچ کا اور انہوں نے آگے کا ہی سوچا ہم بیوقوف سمجھے یہ نعرہ ہمارے لئے ہے اس نعرے کی حقیقت تو آج آشکار ہوئی کہ یہ ہمارے لئے نہیں بلکہ ان کے اپنے لئے تھا آگے کی سوچ انہوں نے سوچی اور ہمیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیا کسی کو نوکری سے برطرف کیا تو کسی کو اس کی کارکردگی کی بنیاد پر تنخواہوں میں کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا ایک سال  تک اپنے شہر سے دور آکر اس مہنگے ترین شہر میں جس طرح اپنا خون پسینہ ایک کر کے محنت کی آگے کی سوچ والوں نے ہماری محنت کے ثمر کے لئے اس سے بھی آگے کا سوچا ،،،

شہر اقتدار میں واقع بلڈنگ پر جب بوجھ بڑھا تو اس کو کم کرنے کے لئے  ،، بال ،، بچوں والے ایک افسر کو کلہاڑا دیا گیا اب وہ بے چارا ٹھہرا پڑھا لکھا صحافی کلہاڑے کا استعمال اسے نہ آتا تھا نہ اس نے کیا جب بار بار کلہاڑا چلانے کا کہا گیا تو وہ شریف آدمی اپنے گھر چلا گیا بلڈنگ سے اس کا بوجھ اترا بمعہ اپنے بال ،،، تو پھر ایک بھاری بھرکم آدمی کو لایا گیا کہ یہ لو کلہاڑا اور چلائو ان صاحب کا چونکہ سابق ریکارڈ کلہاڑا چلانے میں بہت اچھا تھا تو یہاں بھی ایسا ہی ہوا بہت اچھی طرح کلہاڑا چلانا شروع کردیا ۔یہاں ان کا ساتھ دینے کے لئے کچھ برساتی مینڈک بھی میدان میں آگئے۔ جنہوں نے اپنے محسن کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور اپنی نوکری بچانے کے لئے کلہاڑے والے کا ساتھ دینا شروع کردیا اور پھر وہی ہوا جو اب تک ہوتا آیا ہے مالی بوجھ کم کرنے کے نام پر کم تنخواہ والوں کو نوکری سے فارغ کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا لیکن حیرت انگیز طور پر ایک چیز اور دیکھنے میں آئی کہ 25 ہزار تنخواہ والے 10 افراد کو نکال کر ان کی جگہ 1 لاکھ سے 5 لاکھ تک  تنخواہ لینے والے 10 افراد کو نوکری پر رکھ لیا گیا جن کی سب سے بڑی قابلیت یہ تھی کہ وہ کلہاڑے والے کے ساتھ ساتھ ہر جگہ جاتے ہیں جب کلہاڑا چلا تو بہت سارے صحافی اور میڈیا ورکرز کا جن کا کوئی دوسرا آمدنی کا ذریعہ نہیں تھا ان کی حالت غیر ہوگئی منت سماجت بھی کی اپنے کام کا بھی بتایا دوسرے شہر سے یہاں آکر بسنے اور پھر یہاں کی مشکلات کا بھی بتایا لیکن ہر درخواست پھسل کر کرسی کے پیچھے جا گری کوئی دماغ تک نہیں پہنچ سکی کلہاڑا چلانے والے یہاں بھی ایک بات کا خاص خیال رکھا اور وہ یہ کہ یہ کلہاڑا سب پر نہیں چلا بلکہ ایک مخصوص لوگوں کو اس کا نشانہ بنایا گیا باقی کو چھوڑ دیا گیا ۔۔

خیر یہ تو ہے کلہاڑے والے کی داستان اب چلتے ہیں آگے کی سوچ کی جانب ،آگے کی سوچ والوں نے کیا خوب کھیل کھیلا خود کو طرم خاں اور بڑا قابل سمجھنے والے صحافیوں کو ملک بھر سے اسلام آباد لائے اور ایک سال میں ہی آگے کی راہ دکھا دی دوسروں کی آواز بن کر ان کے حقوق کی جنگ لڑنے والے اپنے گرد بنے جال  میں ایسے پھنسے کہ صرف پھڑپھڑاتے ہی رہ گئے جال نہیں کتر سکے جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ نان پروفیشنل مالک کو صحافی بیوقوف بنا رہے ہیں اس نے سو سنار کی ایک لوہار کی والا ایسا کام کیا سب یہی سوچ رہے ہیں کہ درد کو سہلائیں یا کراہیں جائیں تو جائیں کہاں واپسی کا سوچتے ہیں تو بیروزگاری کا عفریت منہ پھاڑے کھڑا نظر آتا ہے شہر اقتدار میں کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے ،، ملازمین نے آگے کی سوچ کا مطلب کچھ اور لیا اور دل و جان سے محنت کی خون پسینہ ایک کردیا مالک نے آگے کی سوچ کا صحیح مطلب نکالا اور اپنا کام پورا ہوتے ہی سب کو ہری جھنڈی دکھادی اب تو کسی سے سیدھے منہ بات کرنے کو بھی تیار نہیں ہے جو چینل کے ابتدائی دنوں میں کارکنان کے ساتھ سیلفیاں بنوانے کے لئے خود آتے تھے ۔

بہر حال اب تو حالات اس حد تک جا چکے ہیں کہ چھانٓٹیوں اور کٹوتیوں سے خوفزدہ لوگ ایک دوسرے سے دکھ درد شیئر کرتے بھی ڈرتے ہیں کیا پتہ کون کب ٹوٹ جائے فائدہ اٹھانے والے اس صورتحال سے فائدہ اٹھارہے ہیں کوئی سیاسی اثرو رسوخ استعمال کرکے اپنی لائن  سیدھی کررہا ہے تو کوئی برادری کا ساتھ دینے کی سفارش کروارہا ہے ،،، اس ساری صورتحال میں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ آگے کی نہیں اپنے گھر کی سوچنی چاہئے جیسا اس سلوگن والے نے کیا اب وہ ہمیں بھی کرنا چاہئے اگر ایسا نہیں کیا تو ہمیں اور کوئی نہیں ہماری اپنی آنے والی نسل معاف نہیں کرے گی ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے اور ہماری نسل ہمیں ناکام لوگوں کے طور پر یاد کرے گی جس کو چند پیسے والوں نے میر صادق اور میر جعفر کے ذریعے بیوقوف بنا کر ہمارے ہی نہیں ہماری نسلوں کے خواب بھی چھین لئے۔۔(ناکام صحافی)۔۔

زیرنظر تحریر “ہم نیوز” کے ایک موجودہ صحافی کی ہے، حاضرسروس اس صحافی نے اپنے قلمی نام سے یہ تحریر ہمیں بھیجی،جس سے ہماری ویب اور ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔ اگر کسی کو اختلاف ہے تو اپنا موقف ہمیں بھیج سکتا ہے۔۔علی عمران جونیئر

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں