aese nahi chalega

ایسے نہیں چلے گا۔۔

تحریر: محمد فہد خان۔۔

ہمارے ہاں دنیا جہاں سے موازنہ تو ہمیشہ ہی سے رہا یے، جو کہ اچھی بات ہے۔ مگر موازنہ کرتے کرتے یہ بات نطرانداز کردی جاتی ہے۔ آیا ہمارا معاشرہ کسی بھی صورت میں کسی ڈیویلپڈ ملک سے موازنے کے مقابل ہے؟ کیا ہماری معیشت اس قابل ہے کہ موازنہ کیا جاسکے؟ کیا موازنہ کرتے وقت ہر قسم کی بات کی جاتی ہے؟ پاکستانی میڈیا میں بھی عالمی ابلاغ عامہ سے کسی بھی طرح کا موازنہ کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اگر عالمی میڈیا کو اچھا دکھایا جا رہا ہے تو ساتھ میں یہ بھی دکھائیں کہ قانون تورڑنے پر وہاں میڈیا کو سخت ترین سزاوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بیرون ملک عدالتیں ہی سازائے موت اور عمر بھر کی سزائیں دیتی ہیں یہاں تو زرا سا چھیڑدیں تو آزادی اظھار پر حملہ ہوجاتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ۔ اورکڑوا کڑوا تھو تھو۔

پچھلے دنوں اک صحافی کا ٹوئٹر پر ٹوئٹ دیکھا جس میں وہ صاحب شکوہ کرتے نظر آئے کہ پاکستانی میڈیا کو وہ آزادی نہیں جو کہ عالمی میڈیا کو میسر ہے، موازنہ کر رہے تھے صاحب پاکستانی اور بیرونی میڈیا کا ۔ بجا فرمایا محترم نے لیکن میاں کیا جانیں کہ اس دور میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کا میڈیا شامل ہے جہاں دھونس، جبراور حکومتی سرپرستی میں خبر دبائ جاتی ہے، اور تو اور جب کوئ چینل یا اخبار یا پھر صحافی خبر دے بھی دے جو کہ ملک کی سالمیت یا حکومت کے خلاف ہو تو جوابی کاروائ میں سخت ترین سزائیں بھی ہوتیں ہیں ایسی سزائیں جن کا تصور پاکستانی صحافی کر بھی نہیں سکتا۔

تو آج اسی حوالے سے یہ بلاگ آپکی خدمت میں پیش ہے۔ آج آپکو احوال سنائیں گے دنیا جہاں کے میڈیا کا۔  ہمارے ہاں باز گشت ہے کہ میڈیا کو خبر چلانے سے روکا جاتا ہے، ریاست خبر کو روکتی ہے تو یہی جانیں گے کیا عالمی ابلاغ عامی میں بھی ایسا ہوتا ہے یا نہیں۔۔ تو شروعات کرتے ہیں پاکستان میں اظھار رائے کس قدر ہے اور پھر بات کریں گے عالمی ابلاغ عامہ کی۔

پاکستان میں تو امن کی آشا سے لے کر جنگ کی بھاشا  تک غرض ہر طرح سے میڈیا موقف بنانے میں اثر انداز ہوتا ہے، اور جب کسی بات پر پکڑ ہو تو ہمارے ہاں تو معاشرہ اور قانون  دونوں ہی میڈیا کے حق میں نظر آتے ہیں، پھر چاہے بے حودگی پر پیمرہ کا ایکشن ہو یا انتشار پر، کسی کے خلاف عوام کو اکسانے پر پیمرہ پابندی لگائے یا پھر ملک کے خلاف کوئ خبر چلی ہو پیمرہ ایکشن لیتا ہے اور بھاری جرمانہ اور چینل کی بندش جیسے اقدامات کرتا ہے مگر خبر کے غلط ہونے پرپیمرہ کے اقدام کے خلاف  “اسٹے آرڈر” لے لیتے ہیں اور کام چلتا رہتا ہے۔ مگر بیرون ممالک میں ایسا کچھ نہیں ہوتا جو ہوتا ہے وہ ابلاغ عامہ کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آیا یہ خبر معاشرہ کے لیے سہی ہے یا نہیں اور کہیں ہمارے ہی گلے نہ پڑ جائے۔

پاکستان کے پڑوس میں واقع دیش بھارت، جہاں کئ خبروں کو روکا جاتا ہے بلکہ کئ با اثر سیاسی بنیادوں پر اور طاقتور کے ایما پرخبر کو  نہ صرف روکا جاتا ہے بلکہ خبروں کو پاکستان دشمن، مسلمان دشمن، بھی دکھایا جاتا ہے، بھارت میں تو اگر آپ سرکار کے خلاف کچھ چلا دیں تو سماج میں اس چینل کے ملازمین یا صحافی کو سرعام پیٹا جاتا ہے۔ جبکہ یہاں اونے پونے داموں اور بنا تصدیق کے خبر چلانے پر بھی کوئ پوچھنے والا نہیں۔

بات کی جائے افغان میڈیا کی، تو افغان میڈیا بھی خبر کو دباتا ہے، خبر کو توڑ مروڑکر پیش کرتا ہے۔ پھر چاہے حکومتی دباو ہو یا نہیں۔  عموما پاکستان سے متعلق خبروں پر خاصا دھیان رکھا جاتا ہے اور پاکستان کے حق میں آنے والی خبر کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جتنی کسی حملے پر الزام لگاتے وقت کی جاتی ہے۔ پی ٹی ایم ہو یا پاکستان کے افغان امن عمل میں کردار کی بات ہو پاکستان کے کردار کو منفی دکھایا جاتا ہے۔

ایران بھی اپنے میڈیا کو ڈکٹیٹ کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے، ایرانی میڈیا جب بھی بات کرتا ہے تو سر فہرست ملکی سالمیت اور دفاع کا سوچتا ہے۔ پھر چاہے سلیمان قاسمی کے مسئلے پر ایرانی میڈیا کی کوریج ہو یا پھر ایران افغان بارڈر پر ہونے والا انسانی جان کے ضیاع کا واقعہ ہو، واقعہ کچھ یوں ہے کہ افغان مھاجرین ایران کے بارڈر پر تھے کی ایرانی بارڈر فورس کی جانب سے انہیں نہر میں پھینک دیا گیا جس سے درجن سے زائد افراد ہلاک اور لاپتہ ہوئے تھے۔ اس خبر کو ایرانی میڈیا نے افغان مھاجرین کی غلطی کے طور پر پیش کیا۔ جبکہ اس کے علاوہ کئ صحافیوں کو سزائیں بھی ہوئیں ہیں، وہ بھی ایرانی عدالتوں کی جانب سے سچ بولنے کی پاداش میں۔

اب چلتے ہیں ایران سے سعودی میڈیا کی جانب۔ تو جناب سعودی عرب میں میڈیا کےپابند ہونے کی سب سے بڑی مثال صحافی  جمال خشگجی کی ہے جنہیں سعودی بادشاہ پر تنقید کرنے پر قتل کردیا گیا۔ جبکہ یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ سعودی میڈیا کو اس دور میں بھی سعودی بادشاہت، سالمیت، شاہی خاندان اور سعودی عرب کے خلاف خبر چلانے پر سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی میڈیا ایراق اور شام پر سعودی بمباری میں عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور بے گناہ کے قتل پر خاموش رہتا ہے۔

چینی میڈیا میں بھی سنسرشپ کا تصور ہے۔ مثال چاہیئے تو سنئے۔ یوغیر کے مسلمان، اگرچہ دشمن ممالک پراپیگنڈہ کر رہے ہیں  چین کے خلاف۔ مگر خود وہاں کے مسلمانوں کی آواز کو دبا کر انہیں سنسر کیا جارہا ہے، چینی میڈیا ملک کے خلاف کسی بھی نیوز کو نہیں دیتا۔ یہاں تک کے کورونا کی وبا پر بھی اس وبا سے ہلاکتوں کی خبر کو ابتدائ دنوں میں چھپایا جارہا تھا۔

شمالی کوریا بھی آپکے سامنے ہے جہاں ملک کے خلاف یا ملک کی سلامتی کے خلاف بات کربھی لی جائے تہ پھر سزائے موت کا پروانہ ہی نکلتا ہے۔ ہمارے ہاں تو پھر آزادی اظھار رائے ہے مگر شمالی کوریا کو سوائے میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کے اور کچھ قبول نہیں۔ زیر غور بات یہ بھی ہے کہ شمالی کوریا میں سرکاری ٹی وی کے علاوہ کوئ دوسرا نیوز چینل نہیں۔

فلپینی میڈیا جو کہ خبرپہینچاتا ہے آج خود خبر بن کر رہ گیا ہے۔ جی ہاں، فلپینی صدر راڈریگو ڈیوٹرٹے نے اک متنازع  قانون پر دستخط کیے تھے جو کہ میڈیا کی آزادی پر پابندی لگا دیگا۔ اب یہ قانون ویسے تو انسداد دہشنگردی ایکٹ کا قانون ہے مگر آزادی اظھار رائے کے علمبردار اسے میڈیا کی آزادی پر حملہ تصور کر رہے ہیں۔

اسی طرح ہم نے نہ صرف یہ سنا ہے کہ صحافی حضرات صرف بولنے کی پاداش میں قتل کردیے جاتے ہیں ۔ مگر دنیا میں ایسے بھی ممالک ہیں جہاں صحافیوں کو سزائے موت اور عمر بھر کی سزا بھی ملتی ہے اور سزائیں دینے والے میڈیا ریگولیٹر نہیں بلکہ عدالتیں ہوتی ہیں۔ یمنی صحافیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا، جب انہیں سزائے موت کا پروانہ تھما دیا گیا، یہ پروانہ صنعا میں واقع ہوثی عدالت کی جانب سے دیا گیا۔ اس پروانے کی وجہ یہ تھی کہ ین تمام یمنی صحافیوں پر جاسوسی کا الزام تھا۔

ہم تو پھر اتنے آزاد ہیں کہ دشمن ملک کی کامیابی کی خبر دے سکتے ہیں مگر اب میں جس ملک کا زکر کرنے جارہا ہوں ہو سکتا ہے آپ سب نے اس ملک کے بارے میں یہ نہ سوچا ہوگا۔ جی ہاں، جنوبی کوریا جو کہ امریکہ کا حامی بھی ہے۔ واقعہ پر آتا ہوں۔ جنوبی کورین گورمنٹ نے صحافی سن ہیو رم اور یانگ جی ہو اور اخبار پبلشر کم جےاور پانگ سان ہو کو سزائے موت سنائ ہے۔ ان تمام چاروں صحافیوں نے شمالی کوریا کی معیشت سے حوالے سے مثبت خبر چھاپی تھی جو کہ سرکار کو ایک آنکھ نہ بھائ۔ اس پر سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ ان تمام صحافیوں کو سزا کے خلاف اپیل کا حق بھی نہیں دیا۔

میانمار ویسے تو اک چھوٹا ملک ہے مگر اقدام ایسا کیا کہ دنیائے صحافت کو مذ مت کرنا پڑی۔ معاملہ یہ تھا کہ صحافی زاو ٹھیت ہٹوے نے عامی مزدور تنظیم (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) کو میانمار میں جاری چائلڈ لیبر سے آگاہ کردیا۔ اس پاداش میں سرکار نے صحٓافی کو سخت سزا سنائ، مگر اپیل کرنے پر سزا کی مدت ۳ سال کردی گئ۔

ہمارے ہاں تو صحافی کئ مرتبہ دہشتگردوں اور ان کے آقاووں کے دہشتگردانہ کاروائیوں کی وضاتیں دیتے نہیں تھکتے، لیکن یہی عمل اگر آپ کسی دوسروے ملک میں کریں  تو حال کچھ یوں گا جو کہ روس میں ہوا اس صحآفی کے ساتھ۔ ۔ صحافی سلطانہ پروکوپیوا جو کہ روسی ریڈیو اسٹیشن میں کمینٹیٹر ہیں۔ روسی فیڈرل سروس ایجنسی پرہونے والے حملہ پر پروکوپیوا حملہ آوروں کے دفاع میں وضاحتیں دے رہی تھیں جس کی پاداش روسی حکومت نے صحافی پر 6160 یوروز کا جرمانہ عائد کردیا تھا۔

یہ تمام واقعات بتانے کا مقصد یہی تھا کہ وہ تمام افراد جو سنسر شپ اور خبر کو دبائے جانے اورحکومت کے لم و ستم کا شکار سمجھتے ہیں تو زرا دنیا جہاں میں دیکحیں اور مکمل موازنی کریں۔ کس طرح صحافیوں کو سچ بولنے پر سزائے موت تک سنا دی جاتی ہے۔ کئ ممالک میں یہ سزائیں حکومت نہٰں بلکہ عدالتیں دیتی ہیں۔ جبکہ اس بات کا موازنہ بھی کر کرلیں تو ہمارے ہاں تو سچ تو بہت دور کی بات ہے جھوٹ بولنے پر بھی آزادی صحافت پر حملہ ہوجاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو دہشتگردوں  اور سہولت کاروں کے حق میں وضاحتیں تک دی جارہی ہوتی ہیں جبکہ روس کی مثال سامنے ہے جہاں ایسے عمل پر سزا بھی ہوئ۔  اپنے بلاگ کو یہی پر اختتام کروںگا کہ ہمارے ہاں پھر اس طرح پابندیاں نہیں ہیں جس طرح بیرون ممالک ہیں(محمد فہد خان)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں