cheekhne ki zaroorat hai | imran Junior

ایسا بھی ہوتا ہے

تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، اس ناہنجار دنیا میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔۔ انہونیاں اسی ملک میں ممکن ہیں۔۔ کیا اپریل تک کسی کو یقین تھا کہ ایک ایسا شخص جس پر منی لانڈرنگ کے الزام میں معزز عدالت میں فردجرم عائد ہونے والی تھی وہ وزیراعظم بن جائے اور پھر وہ کیس ہی ختم کرکے ’’آنرایبل‘‘ وزیراعظم صاحب کو باعزت بری کردیاجائے؟؟ اس مملکت خداداد میں ریلیف صرف ایلیٹ کلاس کا حق ہے۔ جب یہ آپس میں لڑتے ہیں تو تکلیف میں آتے ہیں۔ البتہ یہ لڑیں یا نہ لڑیں بہر حال یہ طے ہے کہ عام آدمی کو کبھی ریلیف نہیں ملے گا۔2 وزیراعظموں کی آڈیو ز آچکیں، ٹیلی فون کالیں، دفتر میٹنگز لیک ہو چکیں، بات گندی ویڈیوز تک پہنچی ہوئی، مگر کسی کو رتی بھر شرم نہ آئی،، ہم نے 70 سال سے پولیس کو احتجاج روکنے اور ہنگامے کنٹرول کرنے پر لگا رکھا ہے چناں چہ ملک میں لاء اور آرڈر دونوں فوت ہو چکے ہیں‘ عدالتوں کا کام مظلوموں کو انصاف دینا ہوتا ہے لیکن ہماری عدالتیں 70 سال سے سیاسی مقدمات بھگتا رہی ہیں لہٰذا انصاف بھی کورٹس اور کچہریوں میں دفن ہو چکا ہے۔آپ ہی بتائیں۔ اس ملک کی ایلیٹ کلاس نے، کب آپ کو کہا کہ آپ ایمانداری سے کام کریں۔ ’’ہاتھ‘‘ نہ ماریں۔ وسائل نہ ہڑپ کریں۔ کہتے ہیں کہ میراثی کو پانچ سو روپے کی ضرورت پڑی تو وہ اپنے علاقے کے نمبردار کے پاس گیا، وہ اس وقت بڑے اچھے موڈ میں تھا، اس نے کچھ کہے سنے بغیر پانچ سو روپے اس کے حوالے کر دیے۔یاد رہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے، جب دس پندرہ روپے دیہاڑی ہوا کرتی تھی۔ نمبر دار نے سوچا تھا کہ میری رعیت ہے، کہاں جائے گا۔ نسل در نسل تو میرے پرکھوں کی خدمت کرتے آئے ہیں، پانچ سو لے لوں گا۔لیکن یہ اس کی خام خیالی تھی۔میراثی نے پانچ سو نہ دینے تھے، نہ دیے۔ وقت گزرتا چلا گیا۔ آخر نمبر دار اس دنیا کو خیر آباد کہہ گیا، لیکن یہ معاملہ وہ اپنے بیٹوں کے سپرد کر گیا تھا کہ فلاں میراثی سے پانچ سو وصول کرنے ہیں، اسے معاف نہ کرنا۔وقت گزرتا رہا۔ نمبر دار کے بعد اس کا بڑا بیٹا گاؤں کا نمبر دار بنا تھا، وہ بھی وقتاً فوقتاً میراثی سے پیسوں کی واپسی کا مطالبہ کرتا ریا، لیکن آج کل، آج کل کرتے کرتے سالوں بیت گئے۔اس دنیا میں جو آیا ہے، اس نے ایک دن جانا ہی ہے۔ تا قیامت تو شیطان کے علاوہ کسی کو زندگی نہیں ملی۔ وہ میراثی بھی اپنے مقررہ وقت پر اس جہان کو چھوڑ گیا۔جب اس کا جنازہ پڑھایا جانے لگا، تو حسب راویت ورثاء کی طرف سے اعلان کیا گیا۔۔ مرحوم سے اگر کسی کا لینا دینا ہو، تو اس کے بیٹے موجود ہیں۔۔اس کے جنازے میں نمبر دار بھی اپنے بھائیوں کے ساتھ موجود تھا۔ وہ اسی موقعے کی تلاش میں تھے اور آج وہ یہ موقع کیسے جانے دیتے۔ وہ آگے بڑھا اور لوگوں کو مخاطب کر کے بولا۔۔ مرنے والے نے ہمارے باپ سے پاچ سو روپے ادھار لیے تھے، لیکن آج تک نہیں لوٹائے۔ ہمیں وہ پانچ سو روپے چاہئیں۔۔۔میراثی کے بڑے بیٹے نے نمبردار کی بات سن کر جواب دیا۔۔ ٹھیک ہے، کفن دفن کے بعد آپ کو مل جائیں گے۔۔نمبردار الجھ گیا، نہیں،نہیں، مجھے یہ پانچ سو روپے ابھی چاہئیں اسی وقت۔۔یہ سن کر سب لوگ حیران رہ گئے، انہیں نمبردار سے اس بات کی توقع نہیں تھی۔وہ سب اسے سمجھانے لگے۔۔ آپ کو جنازے کے بعد رقم مل جائے گی۔۔ بے فکر رہیں۔۔نمبردار بھی شاید گھر سے فیصلہ کرکے آیا تھا کہ اگر ابھی رقم نہ لی تو پھر یہ کبھی نہیں ملے گی۔۔اسی لیے پہلے رقم اور باقی کام بعد میں۔۔ اسی لیے وہ ہٹ دھرمی پر اتر آیا۔مراثیوں نے کچھ دیر تو انتظار کیا، لیکن جب انھیں یقین ہوگیا کہ نمبر دار آج اپنی اس ضد سے باز نہیں آئے گا، تو وہ اکٹھے ہو کر باہر نکلے اور اپنے گھروں کوچل دیے۔ لوگ سمجھے کہ وہ رقم لینے گئے ہیں۔ نمبر دار بھی خوش ہوگیا کہ آج باپ کا دیا ہوا قرض مل رہا ہے، لیکن یہ اس کی خام خیالی تھی، کیوں کہ مراثی دو گھنٹے گزرنے کے بعد بھی نہ آئے۔ اب تو لوگ حیران ہوئے کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ایک آدمی کو ان کے پیچھے دوڑایا گیا۔ جب وہ واپس آیا، تو اس کی باتیں سن کر سب دھک سے رہ گئے۔ اس نے بتایا کہ مراثیوں نے کہا ہے کہ نمبرادار نے ان کی ہتک کی ہے، اس لیے اب وہ ان کے بابے سے پیسے وصول کر لیں، جب پیسے وصول ہو جائیں، تو پھر اسے دفنا دیں۔۔۔ اب بابا جانے اور نمبر دار جانے۔یہ سن کر سب دھک سے رہ گئے۔ نمبردار کے تو ہوش اڑ گئے۔ اسے لینے کے دینے پڑ گئے تھے۔جنازے کا وقت چار بجے سہ پہر مقرر تھا۔ گرمیوں کے دن تھے اور اس بات چیت میں آٹھ بج چکے تھے۔ لوگوں نے بھی کھسکنا شروع کر دیا۔ اب وہاں صرف نمبر دار، اس کے بھائی اور ان کے حواری موجود تھے۔ مراثیوں کا بابا ان کے گلے پڑ چکا تھا۔ اب وہ خود کو کوس رہے تھے کہ انھوں نے وہ مطالبہ کیا ہی کیوں۔اب ایک اور بات نے انھیں پریشان کر دیا کہ اگر انھوں نے بابے کو دفنا دیا، تو لوگ تو ان کا جینا حرام کر دیں گے کہ مراثی کو نمبردار نے دفنایا ہے۔تنگ آ کر وہ آدھی رات کو چوری چھپے مراثیوں کے گھر گئے۔ ان کی منت سماجت کی، ترلے ڈالے۔ مراثیوں کو بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ اب نمبر دار اس حد تک مجبور ہوگیا ہے کہ اس سے اپنے پرکھوں کی بے عزتیوں کا بدلہ بھی لیا جا سکتا ہے۔ یہ دیکھ کر انھوں نے نمبردار کے سامنے یہ مطالبہ رکھا کہ وہ کفن دفن کا خرچ اٹھائے اور تیجے تک ہونے والے تمام اخراجات اسی کے ذمے ہوں گے۔نمبر دار مجبور تھا، اسے یہ مطالبہ ماننا ہی پڑا۔ بس اپنی جھوٹی انا کو عزت رکھنے کے لیے وہ یہ سب مان گیا۔ ورنہ وہ بابے کا جنازہ پڑھوا کر اسے دفن کرا دیتا، تو فائدے میں رہتا، لیکن وہ اپنی مونچھ نیچی نہیں ہونے دینا چاہتا تھا کہ لوگ اسے کیا کہیں گے۔مراثیوں نے اسی وقت اس سے پیشگی دس ہزار روپے وصول کیے اور رات دو بجے بابے کا جنازہ پڑھوا کر سپرد ِ خاک کر دیا۔تیجے پر آنے والے لوگوں کو پھلیوں پر ٹرخا دیا گیا، لیکن تب تک نمبر دار کا پچاس ہزار روپے کا خرچ ہوچکا تھا۔واقعہ کی دُم: اس قصے کا اپریل میں ہونے والی تحریک عدم اعتماد سے کوئی تعلق نہیں۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔ قوم کو آگے بڑھانے کیلئے انتہائی آسان فارمولہ باباجی نے پیش کردیا ہے۔۔۔ٹانگ کے بدلے ہاتھ کھینچو۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں