خصوصی رپورٹ۔۔
پاکستان میں میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے سابق سربراہ ابصار عالم پر قاتلانہ حملے کے ملزمان نے پولیس کو بتایا ہے کہ انھیں کہا گیا تھا کہ ’ابصار عالم کے بازو اور ٹانگیں توڑنی ہیں مگر ہم نے اُنھیں گولی مار دی۔واقعے کو 13 ماہ گزر جانے کے بعد ابصار عالم کو رواں برس مئی میں شیخوپورہ پولیس نے بُلوایا تھا جہاں انھوں نے خود پر گولی چلانے والے حملہ آور کی شناخت کی۔
بیس اپریل 2021 کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف الیون میں ابصار عالم پارک میں واک کر رہے تھے جب انھیں گولی ماری گئی جو ان کے پیٹ میں لگی تھی۔ تھانہ شالیمار میں درج کیس کی فائل بند تو نہیں ہوئی تھی لیکن کیس ایک سوالیہ نشان کی طرح ہی رہا کیونکہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی نادرا کے ریکارڈ کے ذریعے حملہ آور کی شناخت ممکن نہیں ہو پائی تھی۔رواں برس مئی میں اسلام آباد سے کوئی ساڑھے تین سو کلومیٹر کی دوری پر صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کے ایک گھر میں ڈکیتی کے الزام میں گرفتار شخص نے تفتیش کے دوران پولیس کو بتایا کہ اس نے اسلام آباد میں ایک شخص پر حملہ کروایا تھا جس کا نام ابصار عالم ہے۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ابصار عالم نے کہا کہ حملے کے بعد ’مجھے پولیس یہ کہتی تھی کہ ابھی کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہے لیکن مجھے یہ امید ہمیشہ سے تھی کہ کہیں نہ کہیں کوئی بریک تھرو ہو گا۔ یہ قسمت تھی کہ مجھ پر حملہ کرنے والا گینگ کسی اور واردات میں پکڑا گیا۔ جس نے کہا کہ ہم نے اسلام آباد میں بھی ایک بندے کو گولی ماری تھی۔
پولیس نے ملزمان کی جانب سے دیے جانے والے بیانات کو بی بی سی کے ساتھ شیئر کیا ہے۔ان بیانات میں ملزمان نے تسلیم کیا ہے کہ وہ ایک سے زائد مرتبہ اسلام آباد آئے، انھوں نے کرائے پر گاڑیاں لیں اور پھر ابصار عالم پر حملے کے عوض انھیں لاکھوں روپے رقم بھی بطور معاوضہ ملی۔گرفتار ہونے والے چھ میں سے چار ملزمان ضمانت پر رہا ہیں تاہم وہ شخص جس نے ابصار عالم پر گولی چلائی اور وہ ملزم جس نے اس پورے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا اور ملزمان سے رابطے میں رہا، کو جیل بھجوا دیا گیا ہے۔لیکن ابصار عالم پر حملے کی کڑیاں صرف شیخوپورہ تک محدود نہیں بلکہ پولیس تفتیش کے مطابق یہ جرمنی اور فرانس میں مقیم پاکستانی شہریوں سے بھی ملتی ہیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے والے ملزم نے دوران تفتیش اعتراف کیا کہ اس کا جرمنی اور فرانس میں مقیم لوگوں سے رابطہ ہوا تھا۔
اس کیس میں پولیس نے مجموعی طور پر آٹھ افراد کو ملوث قرار دیا ہے جن میں سے زین بیرون ملک مقیم ہیں۔زین قتل کے ایک مقدمے میں سنہ 2017 سے کھاریاں میں پولیس کو مطلوب ہیں اور انھیں اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔ابصار عالم پر حملہ کرنے میں ملزم کے ساتھی رضوان علی اگرچہ حملے کے وقت موقع واردات پر موجود نہیں تھے مگر انھوں نے پولیس کو بتایا کہ انھوں نے گولی چلانے والے ندیم اصغر اور محمد رضوان کا اس کیس کے مرکزی منصوبہ ساز حماد سے رابطہ کروایا تھا۔تئیس سالہ حماد سلیمان جن کا فوج میں ملازمت کے دوران ایک جھگڑے پر کورٹ مارشل ہو چکا ہے اور وہ جیل بھی بھگت چکے ہیں اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا جرائم پیشہ افراد سے رابطہ رہتا ہے۔حماد نے پولیس کو بتایا کہ ’فروری 2021 کے پہلے ہفتے میں زین (جرمنی میں مقیم شخص) نے فون کیا تو میں نے بتایا کہ میں شادی پر ہوں، جس نے کہا کہ فری ہو کر بات کرنا، رات 8 بجے فون پر تقریباً ایک گھنٹہ بات کی اور بتایا کہ اسلام آباد میں 60/50 سال کا ایک آدمی ہے جس نے میری کزن جو کہ جاب کے لیے اس کے پاس گئی تھی سے زیادتی کی ہے۔ آپ نے اس کے بازو ٹانگیں توڑنے ہیں اور کہا کہ صبح پی سی ہوٹل کے سامنے کھڑے ہو جانا وہاں پر آپ کو ایک آدمی ملے گا وہ آپ کو ایڈریس دے گا جس کی بازو ٹانگیں توڑنی ہیں۔ملزم حماد نے پولیس کو بتایا کہ اس کام کے لیے دس لاکھ میں سودا طے ہوا۔چار دن بعد پتہ چلا جسے گولی ماری ہے اس کا نام ابصار عالم ہے۔۔رضوان نے اپنے بیان میں پولیس کو بتایا کہ وہ ابصار عالم پر گولی چلانے والے حملہ آور ندیم کے دوست ہیں اور انھوں نے اکھٹے اسلام آباد کا سفر کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ’مجھے فقط یہ بتایا گیا تھا کہ میرے دوست کا لڑائی جھگڑا ہوا ہے، ہم آپ کو لینے آ رہے ہیں۔میں شام جائے وقوعہ پر پہنچ گیا، تھوڑی دیر بعد ندیم نے اپنے دوست کے کہنے پر کسی آدمی کو فائر مارا، میں اس وقت پارک کی نکڑ پر کھڑا ہوا تھا۔ ہم تین افراد گاڑی میں سوار ہو کر گولڑہ موڑ گئے تو وہاں ندیم اور ندیم کا دوست ہمیں ملے۔ میں ندیم، رمضان بس میں سوار ہو کر واپس چلے گئے۔ اگلے دن گاڑی لے کر ندیم کے رشتہ دار کے پاس آ گئے اور اس نے ہمیں 2 لاکھ 70 ہزار روپے دیے جس میں سے خرچہ نکالنے کے بعد 60 ہزار روپے میرا حصہ آیا جس کے بعد میںگھر چلا گیا۔ چار، پانچ دن بعد مجھے پتا چلا کہ ندیم وغیرہ نے جس کو فائر مارا ہے اس کا نام ابصار عالم ہے۔
ابصار عالم کو گولی مارنے والے ندیم نامی شخص نے پولیس کو بیان میں بتایا کہ ’حامد نے پسٹل مجھے دے دیا۔ افطاری سے چند منٹ قبل مجھے حماد نے کہا کہ اب اس کو شوٹ کر دو۔ میں نے اسے فائر مار دیا اور سامنے گلی میں چلا گیا جہاں پر کار موجود نہ تھی، میں گلیاں کراس کرتے ہوئے گندے نالے میں پسٹل پھینک دیا اور ٹیکسی کروا کر گولڑہ موڑ چلا گیا۔اپنے اعترافی بیانات میں ان افراد نے یہ بھی بتایا کہ یوٹیوبر اور صحافی اسد طور پر حملہ کرنے سے پہلے انھیں صحافی کی ریکی کا کام بھی کیا تھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ رواں برس مارچ میں ابصار عالم پر حملہ کرنے کے لیے پاکستان میں منصوبہ بندی اور اس پر عمل کے لیے رابطہ کاری کرنے والے حماد سلیمان نے اپنے ہی گاؤں تھانہ صدر فاروق آباد میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ایک گھر پر ڈکیتی کی تھی۔ پولیس کی ایف آئی آر کے مطابق وہ ڈیڑھ لاکھ روپے اور ایل سی ڈی چرا کر لے گئے تھے۔انسپکٹر سلیم نیازی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب ہم نے حماد اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کیا تو گاؤں سے ہی ہمارے ایک مخبر نے بتایا کہ حماد سے یہ بھی پوچھیں کہ اس نے اسلام آباد میں کس بندے کو گولی ماری تھی۔ہم نے ملزمان کے فون کا کال ریکارڈ، سی ڈی آر نکلوانے سے پہلے ہی حماد سے کہا کہ تم اسلام آباد کیا کر رہے تھے۔ ہم نے تمھاری سی ڈی آر لی ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ یہ سُن کر حماد نے ابصار عالم پر حملے کا اعتراف کیا۔
’حماد کو جب گرفتار کیا گیا تو دوران تفتیش اس نے اسلام آباد میں صحافی ابصار عالم پر گولی چلانے کا انکشاف کیا، ملزم نے بتایا کہ اس کام کو سرانجام دینے کے لیے انھوں نے دو لوگ شیخوپورہ اور تین خوشاب اور بھکر سے ساتھ ملائے۔پولیس کے تفتیشی افسر کے مطابق ’ہم نے تفتیش کی کہ آیا ملزم کا بیان درست بھی ہے یا نہیں۔ اُن کے فون کا کال ریکارڈ چیک کیا اور لوکیشن چیک کی جس سے بیان کی تصدیق ہوئی۔پولیس کا دعویٰ ہے کہ حماد کو معلوم تھا کہ وہ کس پر قاتلانہ حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔پولیس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ملزم حماد گریجوئیٹ ہے مگر دیگر ملزمان پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو اسلام آباد سے واقف نہیں تھے۔انسپکٹر نیازی نے بتایا کہ اس کیس کا منصوبہ ساز مرزا زین جرمنی میں ہے اور قتل کے ایک مقدمے میں اشتہاری ہے۔انسپکٹر نیازی کا کہنا ہے کہ ’ہم کال ڈیٹا تو لے سکتے ہیں لیکن واٹس ایپ کا ریکارڈ نہیں لے سکتے، دوسرے ملزم حماد اپنے فون پر موجود ریکارڈ کو ڈیلیٹ بھی کر دیتا تھا۔انسپکٹر سلیم نیازی کے مطابق حماد کا فون اسلام آباد پولیس کے پاس ہے اور ہو سکتا ہے کہ فون کے فرانزک آڈٹ کی مدد سے مزید تفصیلات سامنے آئیں۔۔دوسری جانب اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ اس قتل کی منصوبہ بندی اور ملزمان تک رقم پہنچانے کے لیے انتظامات کرنے والے مرزا زین تک پہنچنے کے لیے انٹرپول اور دیگر ممالک کے ساتھ ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ دیکھنا ہو گا۔تاہم پولیس نے تصدیق کی ہے کہ اس سلسلے میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہے۔۔
انسپکٹر نیازی کہتے ہیں کہ ’اسد طور پر حملہ کرنے کا ٹارگٹ بھی اسی گروپ کو ملا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اسد طور پر حملے کے پیچھے بھی زین ہی ہے لیکن حملہ آور گروپ دوسرا تھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ سی ڈی آر سے تصدیق ہوتی ہے کہ اسی گروپ نے اسد طور کے گھر کی ریکی کی۔خیال رہے کہ اسد طور پر حملہ ابصار عالم پر حملے کے ایک ماہ اور چند روز بعد کیا گیا تھا۔ملزم حامد امین جو واردات میں استعمال ہونے والی گاڑی چلا رہے تھے، نے پولیس کو بتایا کہ ’حماد نے مجھے کہا کہ اس آدمی (ابصار عالم) کا ایک شاگرد ہے جس کا گھر تھوڑا آگے ہے۔ ایک روز دوران ڈرائیونگ حماد نے مجھے کہا کہ گاڑی یہاں روک دو میں نے گاڑی کھڑی کر دی۔ حماد نے اس جگہ کی تصویریں اتاریں اور کسی کو سینڈ کر دیں۔حماد سلیمان نے پولیس کو بتایا کہ اسد طور کے گھر کی ریکی کے بعد جب ابصار عالم پر حملہ کیا تو مرزا زین نے ناراضی کا اظہار کیا اور انھیں فون پر کہا کہ ’تمھیں ٹانگیں توڑنے کو کہا تھا۔ملزم حماد سلیمان نے پولیس کو بتایا کہ ’میں نے زین کو کہا کہ ہم اسد طور والا کام بھی کر لیتے ہیں جس پر انھوں نے کہا کہ آپ نے پہلے ہی کام بہت خراب کیا ہے۔
اس تفتیش سے آگاہ ایک پولیس افسر نے بی بی سی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہم نے ڈھائی ماہ ملزمان سے تفتیش کی، جس افسر کو بھی بتاتے تھے کہا جاتا تھا کہ افسر مصروف ہیں۔ ڈی آئی جی نے پوری پوری رات بیٹھ کر سوالات کیے۔ادھر اسلام آباد کے تھانہ شالیمار کے ایس ایچ او سلمان شاہ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ فی الوقت اس کیس کی تفتیش میں کوئی ایجنسی یا ادارہ شامل نہیں ہے اور نہ ہی کوئی رابطہ ہوا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ چھ میں سے دو ملزمان کو اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا جبکہ شیخوپورہ سے گرفتار ہونے والے ملزمان پہلے ہی جیل میں ہیں۔اسلام آباد پولیس کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ تین ملزمان نے ضمانت لے رکھی ہے تاہم اس مقدمے میں ابصار عالم کے وکیل ایڈوکیٹ عثمان وڑائچ کے مطابق انھیں بتایا گیا ہے کہ چار ملزمان ضمانت پر ہیں اور وہ کوشش کریں گے کہ عید کے بعد ان کی ضمانتیں منسوخ ہو جائیں۔بیرون ملک موجود ملزمان تک پہنچنے اور یہ جاننے کہ اس حملہ کا آخر مقصد کیا تھا جاننے میں اندازاً کتنا وقت لگ سکتا ہے؟
اس مقدمے کے مدعی ابصار عالم کے وکیل عثمان وڑائچ کی نظر میں یہ اتنا پیچیدہ کیس نہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’ابصار عالم نے کسی بھی بندے کی خود شناخت نہیں کی تھی بلکہ ان پر حملے کی ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف تھی۔۔۔ پولیس کی ایک آزادانہ تفتیش کے دوران کرائے کے قاتلوں کا ایک گروہ سامنے آیا۔انھوں نے کہا کہ ’میرے علم کے مطابق شاہنواز اور زین کی گرفتاری کے لیے ریڈ وارنٹ جاری ہو گئے ہیں۔وکیل عثمان وڑائچ کہتے ہیں کہ مدعی کو معلوم ہی نہیں تھا اور جون کے مہینے کے دوران چھ میں سے چار ملزمان کو ضمانت پر رہائی ملی۔انھوں نے کہا کہ ’فرانزک شہادتیں، جیو فینسگ ریکارڈ، سی سی ٹی وی فوٹیج، کال ڈیٹا۔۔۔ سب کچھ بہت واضح ہے۔ابصار عالم کہتے ہیں کہ ’حملے سے پہلے تو انھیں براہ راست پیغام کسی نے نہیں دیا لیکن ادھر ادھر سے پتہ چلتا تھا دوسرے مجھ پر غداری اور دیگر مقدمات درج کروائے گئے۔ میں چیئرمین پیمرا تھا تو مجھ پر کیسز ہوئے۔ یہ سب مجھے ظاہر کرتا تھا کہ میں ٹارگٹ ہوں۔ابصار عالم کس کے نشانے پر تھے اور ماسٹر مائنڈ کون ہے شاید ایک روز ہمیں اچانک اس کا جواب ویسے ہی مل جائے جیسے کئی ماہ بعد اچانک ان کے حملہ آور منظر پر آ گئے۔(بشکریہ بی بی سی اردو)