تحریر: خرم علی عمران
پچھلے دنوں ایک ویڈیو کسی نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جس میں سجاد علی کے اس گانے کو کراچی میں پیش آمدہ حالیہ صورتحال پر منطبق کیا گیا تھا تو واقعی بات حسب حال اور بر محل محسوس ہوئی اور ایسا لگا کہ کراچی شہر اپنا نوحہ پڑھ رہا ہے۔ کراچی جو دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے یعنی ایک میگا سٹی اور ابھی آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ جو کہ پاکستان کا معاشی جائزہ اور پاکستانی معیشت پر ایک تبصرہ تھا اس میں ایک فقرہ بڑا قابل غور ہے کہ کراچی کو نظر انداز کرنا پاکستان کی بد قسمتی ہے۔ بس یہی فقرہ اس تحریر کو لکھنے کی وجہ بنا۔ میر صاحب کے شعر میں تصرف کی جرات کرتے ہوئے کہ؎کراچی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب۔۔ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے۔ کیا شہر تھا صاحب اور ہم نے اسے کیا بنا دیا۔ وہ جو انگریزی محاورے کا کچھ یوں ترجمہ ہے نا کہ تخریب تعمیر سے آسان ہے تو بس وہی منطبق ہوگیا اس شہر نا پرساں پر۔
دیکھئے ایک بے آباد مگر زرخیز زمین کو آباد کرنے میں محنت کرنا پڑتی ہے اپنی جان کھپانی پڑتی ہے پھر جاکر ایک خوبصورت کھیت یا باغ وجود میں آتا ہے۔ یعنی محنت لگی تو بات بنی۔لیکن کسی خوبصورت باغ یا سر سبز کھیت کی صرف نگہداشت کرنا چھوڑ دیجئے دیکھ بھال سے ہاتھ اٹھا لیجئے کچھی ہی عرصے میں اجڑا دیار بن جائے گا۔ تو کراچی کے ساتھ تو اس سے بھی زیادہ ہوا کہ نہ صرف اسے بے حال اور بدحال کرنے کے لئے توجہ ہٹالی گئی بلکہ اس پر مستزاد یہ کہ اسے باقاعدہ منصوبہ بندی سے مسائل کا شکار بنا کر ابتر حالت میں لایا گیا۔ اس کھیل میں اشرافیہ کا تو کچھ نہ کچھ فائدہ شاید و باید ہوا لیکن کراچی کے باشندوں کی تو گویا لٹیا ہی ڈوب گئی۔ کس کے پاس کیا اختیار ہے کی باسکٹ بال بڑی مہارت سے کھیلی جارہی ہے ایک دوسرے پر سارے ذمہ داران بڑی مہارت سے الزامات لگا رہے ہیں کہ وہ کام نہیں کرتا ،مجھے کرنے نہیں دیا جاتا، میں کر نہیں سکتا ،چوں چوں،چیں چیں،اڑاڑا دھم۔
ملک کو بقول معاشیات کے ماہرین ستر فیصد ریوینیو دینے والا شہر، منی پاکستان کہلانے والا شہر، سارے پاکستان سے آئے ہوئے لوگوں کو شفقت سے اپنے دامن میں سمیٹنے والا غریب پرور شہر، بڑی بڑی نامور ہستیوں اور علمی و ادبی شخصیتوں اور سب سے بڑھ کر بابائے قوم کا شہر، بڑی بڑی انڈسٹریز،فیکٹریوں اور انڈسٹریل زونز کا حامل شہر، اور اگر یہ کہنا بےجا نہ ہو تو ملک کا سب سے زیادہ سیاسی ،تعلیمی،تمدنی اور تہذیبی پس منظر کا حامل شہر، پاکستان بھر کی صوبائی ثقافتوں کے مظاہر کے دلکش گلدستوں کا حامل شہر، ملک کی سب سے بڑی اور مصروف بندر گاہوں کا حامل ساحلی شہر اور بہت سے دیگر صفات رکھنے والا شہر بارش اور جب تیز بارش آئے تو ایک بہت بڑا سا بن جاتا ہے گٹر! یا پھر ایک قتل گاہ جہاں لوگ کرنٹ سے مرتے ہیں،بوسیدہ عمارتوں اور دیواروں میں دب کر مرتے ہیں،کھلے میں ہولوں میں غرق ہوجاتے ہیں اور بھی بے شمار طریقوں سے کسی گٹر کے کاکروچوں کی طرح مر جاتے ہیں،سالوں سے ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے ۔ چلو مر گئے سو مر گئے مگر پھر بھی کوئی احساس، کوئی ضمیر کا جاگنا، کوئی ایسا مظہر نہیں نظر آتا کہ آئندہ کچھ بہتری ہوگی۔ کچھ دن شور مچتا ہے،میڈیا کو بھی کچھ مدعے اپنی دکان چلانے کے لئے مل جاتے ہیں اور اسکرینوں پر رونق لگ جاتی ہے ادارے ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہتے ہیں،بااختیار لوگ نوٹس لیتے رہتے ہیں اور پھر سب ٹھنڈا پڑ جاتا ہے اور ہم دائرے کے مسافر گھوم پھر کر پھر نقطہءآغآز پر آ کھڑے ہوتے ہیں۔
یہ کیا مذاق ہے دینا کے دس سب سے بڑے میگا سٹیز میں سے ایک کے ساتھ، کراچی کی حالت آئی سی یو میں پڑے مریض جیسی ہوگئ ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ بااختیار لوگ مل کر بیٹھیں اور جیسے دہشت گردی سے نپٹنے کے لئے نیشل ایکشن پلان بنایا گیا تھا ایک کراچی ایمرجنسی پلان بنائیں ،تمام اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے،بڑے بڑے انڈسٹریل گروپس کو انگیج کرکے فنانس اوروسائل ارینج کریں عام لوگوں کو ایک نظام بناکر ایمرجنسی میں تعاون کے لئے پکارا جائے کہ اے کراچی کے عام شہریوں آؤ ہم آپ کو سہولت اور معاونت دیں گے آپ اپنے اپنے علاقوں میں ٹیمیں بناکر ہمارا ساتھ دیں اور سب سے پہلے صحت و صفائی کے معاملات پر دھیان دیا جائے اور پھر نمبر وار باقی مسائل پر۔ سیاسی و سماجی جماعتیں اور تنظیمیں بھی اپنا حصہ ڈالیں اور اپنی اپنی تجاویز پیش کریں۔کے الیکٹرک،واٹڑ اینڈ سیوریج بورڈ، اور اسی طرح کے دیگر عوامی خدمت کے براہ راست ذمہ داران اداروں کا کڑا احتساب کرتے ہوئے اصلاحات کا پیکج عمل میں لایا جائے۔ اور بھی بہت ساری تجاویز اور معاملات زیر غور لائے جاسکتے اور طریقہء عمل طے کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لئے بااختیار اداروں کی سرپرستی و معاونت اور عام شہریوں میں احساس ذمہ داری و احساس شراکت پیدا کرنا بہت ضروری اور لازمی ہے۔ اس سلسلے میں کچھ اختیارات کے ساتھ محلہ اور علاقہ کی سطح پر خدمت کے جذبے سے سرشار عام شہریوں کی محلہ کمیٹیاں تشکیل دی جاسکتی ہیں جو علاقے کے نمائندوں کی ان کاموں کے سلسلے میں معاونت کریں اور اپناحصہ اپنے علاقے کی بہتری کے لئے ڈالیں۔ لیکن یہ سب کرنے کے لئے ،بھلائی اور بہتری کی یہ راہ بنانے کے لئے سب سے زیادہ ضرورت چاہ کی ہے احساس کی ہے اور اس غریب پرور مظلوم شہر نا پرساں سے محبت کرنے کی ہے۔ کہتے ہیں کہ شہر بھی انسانوں کی طرح ہوتے ہیں اور اگر ان سے پیار کرو ان کا خیال کرو تو وہ بھی جوابا بہت کچھ مثبت لوٹاتے ہیں اور اگر ان سے نفرت اور بے اعتنائی کا رویہ اختیار کرو تو وہ بھی منفی لوٹانے لگتے ہیں۔بہت ظلم ہوگیا اس شہر کے ساتھ اور ظالمین میں عوام خواص نیک و بد سب ہی کسی نہ کسی درجے میں شامل ہیں تو اب تو کوئی مداوا،کوئی تلافی کوئی بھلائی اور بہتری اور کوئی محبت بھرا سلوک اس شہرِ مظلوم کے لئے بھی بنتا ہے نا کہ نہیں؟ کیا خیال ہے۔(خرم علی عمران)