تحریر : سید عارف مصطفیٰ
ایک بار پھر عامر لیاقت خبروں کا موضوع بن گئے ہیں۔۔۔۔ اور گو کہ خبروں کا مرکز بنے رہنے کا کھیل انہیں بہت اچھی طرح سے آتا ہے کے جسے وہ گزشتہ کئی برسوں سے بخوبی کھیل رہے ہیں اور اس ضمن میں منفی اور مثبت اقدار انکا مسئلہ کبھی نہیں رہیں ، لیکن اس مرتبہ یہ کھیل انکے ہاتھ سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ ابکے بات توہین عدالت کے نوٹس تک جاپہنچی ہے جو کے انہیں ملک کی سب سے بڑی عدالت کی جانب سے دیا گیا ہے اور انہیں اس اعلیٰ ترین عدالتی فورم پہ جھوٹ بولنے کا مرتکب ٹہرایا گیا ہے کیونکہ انہوں نے جنگ گروپ کی جانب سے انکے خلاف دائر توہین عدالت کے کیس میں چیف جسٹس کے اس استفسار پہ کہ انہوں نے بھارت کا باپ اور بھارت کا بیٹا کسے کہا؟ یہ جواب دیا کے اجیت دوول اورمودی کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے جس پہ چیف جسٹس نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا آپ جھوٹ بول رہے ہیں اور انہیں ،جھوٹ بولنے پرانہیں توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کرنے کا حکم دیدیا۔۔۔
اس عدالتی نوٹس میں انہیں دو ہفتوں میں جواب دینے کا پابند کیا گیا ہے ۔۔۔ واضح رہے کے چیف جسٹس کا یہ اظہار برہمی اس کھلی حقیقت کے حوالے سے تھا کے بزعم خود یہ عوامی اینکر صاحب بول چینل پہ اپنے پروگرام ایسے نہیں چلے گا میں بارہا جنگ اور جیو گروپ اور اسکے مالک پہ بغیر کوئی ثبوت دیئے، توہین مذہب ، ملک دشمنی اور غداری کے سنگین الزامات عائد کرتے رہے ہیں اور انکے خلاف منافرت پھیلانے کی اشتعال انگیزی متعدد مرتبہ اور کھلے عام کی ہے,
توہین عدالت کے اس نوٹس کا عامر لیاقت کیا جواب دیتے ہیں اور اپنا دفاع کس طرح کرپاتے ہیں اس کا اندازہ تو انکے جواب سے ہی ہوپائے گا لیکن اس مقدمے کے چند پہلو اور بھی ہیں کہ جنکا جائزہ لینا مناسب ہے مثلاً یہ کے چیف جسٹس نے کہا کے یہ مقدمہ فوجداری نہیں ہے ،،، انکی یہ بات ہرگز غلط نہیں کیونکہ یہ مقدمہ ازالہء عرفی کی نوعیت لیئے ہوئے ہے تاہم اگر عامر لیاقت پہ الزام ثابت ہوجاتا ہے کے وہ اس بڑے میڈیا گروپ اور اسکے مالک کو دین و ملک کا دشمن قرار دینے کی اشتعل انگیزی کے مرتکب ہوئے ہیں تو پھراس فیصلے کے اثرات و نتائج بہت سنگین ہوجائینگے اور ایسی اشتعال انگیزی محض توہین تک محدود شمار نہیں ہوگی بلکہ یہ عمل پاکستان پینل کوڈ کی سیکشن 503 کی رو سے تخویف مجرمانہ ہے اور یہ ضابطہء فوجداری کی رو سے قابل سزا جرم ہے کیونکہ اسے عامتہ الناس کے جذبات منفی طور پہ بھڑکا کے انہیں تشدد پہ اکسانے کی کوشش اور دھمکی کے مترادف سمجھا جائیگا اور یہ عمل دہشتگردی بھی شمار ہوگا ۔۔۔۔
اس مقدمے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب عدلت میں عامرلیاقت کے توہین آمیز کلپس چلا کے دکھائے گئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ۔یا ایسے لوگوں کو پارلیمنٹ میں بیٹھنا چاہئے جن کو اپنی زبان پر اختیار نہیں، ٹی وی پر عام لوگوں کو کیا بتا رہے ہیں ۔۔۔ تو بول چینل کے مجاز افسر یعنی ڈائریکٹر نیوزسمیع ابراہیم نے عدالت سے یہ کہا کہ انہیں پہ بہت شرمندگی ہے اور وہ اس پہ معافی مانگتے ہیں ۔۔۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے ملک کی سب سے معزز عدلیہ کے سربراہ کے ان ریمارکس اور چینل کی جانب سے شرمساری کے اظہار کے بعد اس چینل نے موصوف کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کرنا تو دور انکو اس پروگرام سے ہٹانے کا تکلف بھی روا نہیں رکھا اور عامر لیاقت وہاں اپنا پروگرام بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں…
اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے جو گو کہ براہ راست اس سے جڑا ہوا تو نہیں ہے لیکن بالکل الگ بھی نہیں ہے اور جسے قطعی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیئے وہ یہ ہے کے عامر لیاقت نے گزشتہ برس نومبر میں جب بول چینل چھوڑا تھا تو وہ اپنے ٹؤئیٹس اور ویڈیو بیان میں بول چینل کے مالک شعیب شیخ کو جوبلی کے کرمنل کا لقب دے کریہ بھی کہ چکے ہیں کے انکے پاس بول چینل اور اسکے مالک کےجرائم حوالے سے متعدد ایسی بھیانک کہانیاں موجود ہیں کہ جنہیں اگر سنادیا جائے تو سننے والوں کی رگوں میں لہو منجمد ہوجائے(اور یہ سب باتیں نیٹ اور یوٹیوب پہ اب بھی دستیاب ہیں) لیکن بعد میں اپنی سیاسی اغراض اور میڈیائی پیاس کی خاطر انہوں نے یہ سب باتیں چھپاکے ، واپس اسی چینل کو جوائن کرلیا اور یوں یہ طے ہوگیا کہ اگرسوشل میڈیا و یوٹیوب پہ لگائے گئے انکے یہ الزامات سچے تھے تو اسکے باوجود اس چینل پہ رہ کر اور پھروہاں ہوئے حقائق سامنے نہ لا کے وہ پاکستان پینل کوڈ کی سیکشن 108 اور 109 کی رو سے اعانت مجرمانہ کے مرتکب ہوئے ہیں ۔۔۔ لیکن اگر یہ الزامات جھوٹے ہیں تو وہ سیکشن 499 کے مطابق توہین اور ازالہء حیثیت عرفی کے زمرے میں قابل سزا ہیں ۔۔۔۔ انہوں نے درحقیقت ایک جرم مسلسل کا ارتکاب کیا ہے کیونکہ یہ اقدام قانونی طور پہ’اعانت مجرمانہ’ سے کم ہرگز نہیں اور مستلزم سزا ہے کیونکہ وہ واضح طور پہ قوم سے ایک بڑے دھوکے اور خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہاں اس مسئلے سے برآمدہ اثرات کا ایک اور قانونی پہلو بھی سامنے آجاتا ہے جو کہ انتخابی قوانین سے متعلق ہے کیونکہ اگر وہ ان معاملات میں اپنے قانونی دفاع میں ناکام ہوکے سزایاب ہوجاتے ہیں تو پھروہ کسی طور آئین کے مطلوبہ تقاضوں کی رو سے مطلقاً صادق و امین نہیں رہتے اور یوں الیکشن کمیشن کو بھی انکی قومی اسمبلی رکنیت کو ساقط بلکہ منسوخ کیئے بغیر کوئی چارہ نہ ہوگا.
(بلاگر کی تحریر سے ہماری ویب کا متفق ہوناضروری ہے۔۔علی عمران جونئیر)