تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
حکومت کے ایک اہم عہدے دار کا فون تھا‘ بولے: آپ نے دہری شہریت کے حامل مشیروں پر جو گفتگو کی اس پر اوورسیزپاکستانی ناراض ہورہے ہیں۔آپ صحافی ہیں اور یہ اچھی بات نہیں ہے ۔آپ کو اس کا پروفیشنلی نقصان ہوگا ۔ چند ہفتے قبل اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے دہری شہریت رکھنے والوں کے خلاف پاکستان میں ماحول بننا شروع ہوا ‘ حکومت پر دبائو بڑھا کہ وہ اپنے معاون خصوصی کی جائدادوں کی تفصیلات اور شہریت پبلک کرے۔ میں نے پوچھا: مجھ سے اوورسیز ناراض کیوں ہیں؟کہنے لگے: وہ سمجھتے ہیں کہ آپ دہری شہریت والوں کو عہدے دینے کے خلاف ہیں۔میں ہنس پڑا اور کہا ‘” یار تم کتنے سیانے ہو‘ سارا ملبہ مجھ پر ڈال دیا کہ پورے پاکستان میں صرف میں اوورسیز پاکستانیوں کے پاکستان میں عہدے لینے کے خلاف ہوں ۔ ایک بات بتائو‘ عمران خان صاحب خود بائیس سال یہ کہتے رہے کہ دہری شہریت والوں کو پاکستان میں اعلیٰ عہدے نہیں دینے چاہئیں۔ وزیراعظم بننے سے پہلے وہ روز یہ بات دہراتے کہ جس نے کسی اور ملک کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہو وہ کیسے پاکستان میں وزیر لگ سکتا ہے؟ عمران خان صاحب پر یہ اوورسیز بہن بھائی ناراض نہیں ہوئے بلکہ الٹا لاکھوں ڈالرز دیے۔ اوورسیز پاکستانی غلام سرور خان سے بھی ناراض نہیں جنہوں نے ٹی وی شو میں کہا تھا کہ کابینہ کو دہری شہریت والوں سے بھر دیا گیا ہے‘کل کو یہ سب شوکت عزیز کی طرح بیگ اٹھا کر چلتے بنیں گے۔ غلام سرور خان کے بعد شیخ رشید نے بھی یہ ایشو ٹی وی پر اٹھایا۔ کابینہ کے اجلا س میں بھی کئی دفعہ دہری شہریت کے معاملے پر وزیروں نے بات کی۔ ان سب پر میرے اوورسیز بھائی ناراض نہیں ہیں اور سارا غصہ مجھ پر نکال رہے ہیں؟‘‘
میں نے بات جاری رکھی: آپ وزیر اعظم صاحب کے مشیر ہیں‘ کیا ان بائیس برسوں میں آپ نے خان صاحب کو روکا تھا کہ دہری شہریت پر سٹینڈ نہ لیں کہ کہیں اوورسیز پاکستانی ناراض نہ ہو جائیں؟ سب سے زیادہ پیسہ اور چندہ تو عمران خان صاحب کو اوورسیز پاکستانیوں نے دیا ‘جن کے بارے وہ روز کہتے تھے کہ دہری شہریت کا حامل پاکستان کا حلف کیسے لے سکتا ہے؟ میں نے کہا: یہ آپ لوگوں کاکمال ہے کہ دن کو رات اور رات کو دن ثابت کردیتے ہیں ۔ جب عمران خان وزیراعظم نہیں بنے تھے ‘اُس وقت آپ لوگوں نے ہی آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا کہ اوورسیز اور دہری شہریت والوں کا پاکستان میں کیا کام ؟ اب ذاتی دوستوں کو وزیر بنا دیا ہے اور جب ان کے کارنامے سامنے آئے ہیں تو انہیں بچانے کیلئے اوورسیز پاکستانیوں کا کور لے رہے ہیں۔ میں نے کہا: اس وقت عمران خان اس لیے اوورسیز کے خلاف تھے کہ زرداری اور نواز شریف وہی کام کررہے تھے جو آج کل خان صاحب کررہے ہیں۔ زرداری اور شریف بھی ذاتی دوستوں کو اعلیٰ عہدے اوورسیز کے نام پر دے رہے تھے جو لندن یا نیویارک میں ان کو مال کھلاتے اور ان کے خرچے اٹھاتے تھے۔ شریف خاندان تو لندن کے بدنامِ زمانہ جرائم پیشہ کو اٹھا کر پاکستان لے آیا تھا اور اعلیٰ عہدہ دے دیا۔ نیویارک سے ایسا بندہ سینیٹ میں لائے جو وہاں ہوٹل چلاتا تھا‘ جس کے خلاف ماضی میں ایف بی آئی منی لانڈرنگ کے الزامات پر تفتیش کرتی رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو پتہ ہے زلفی بخاری کا لندن میں کیا کاروبار ہے؟ گوشواروں کے مطابق وہ لندن کی چند بلڈنگز کے مالک ہیں۔ کسی بلڈنگ کا مالک ہونا کاروبار نہیں ہوتا‘کوئی بتائے گا زلفی بخاری کا کیا کاروبار ہے؟ ارشد شریف نے عمران خان سے پوچھا تھا کہ زلفی بخاری کون ہے تو جواب ملا: وہ میرا دوست اور لندن کا بڑا بزنس مین ہے۔ پوچھا گیا: دوست کیا کاروبار کرتا ہے؟ جواب تھاکہ وہ نہیں جانتے کہ وہ کیا کاروبار کرتا ہے۔ اب جس برطانوی شہری کے کاروبار کا پتہ نہیں اسے وفاقی وزیر کا درجہ دے کر روزویلٹ ہوٹل کی خرید و فروخت یا جوائنٹ وینچر کا سودا کرنے کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے۔ سوال کریں تو اوورسیز پاکستانی ناراض ہو جاتے ہیں ۔
ندیم بابر امریکن شہری ہیں ۔ امریکہ میں انہیں کتنے لوگ وزیر بننے سے پہلے جانتے تھے یا یہ جانتے ہوں کہ وہ کیا کاروبار کرتے ہیں؟ اب پتہ چلا ہے کہ وہ حکومتِ پاکستان کو بجلی بنا کر بیچتے ہیں ۔ جس وزارت کو وہ چلا رہے ہیں وہی ان سے بجلی خریدتی ہے۔ ابھی حکومت پاکستان نے دو سو ارب روپے کا قرض لیا ہے اور اس میں سے ندیم بابر کو بھی اربوں دیے گئے ہیں۔ کینیڈا سے تانیہ ایدروس آئی تھیں۔ انہوں نے اپنی الگ کمپنی کھول کر اس میں بل گیٹس سے لاکھوں ڈالرز لینے تھے جس کا حکومت پاکستان کو علم نہ تھا۔ اب اس پر بھی بات کریں تو ہمارے اوورسیز بھائی ناراض ہوتے ہیں ۔مگر وہ اوورسیز پاکستانی جنہوں نے اس ملک کیلئے بہت کچھ کیا ‘انہیں جانتا کوئی نہیں۔ اکبر چوہدری کو کتنے لوگ جانتے ہیں جو ورجینیا میں رہتے ہیں؟ اکبر چوہدری نے برسوں اپنی گاڑی پر عمران خان صاحب کو بٹھا کر امریکہ میں گھمایا اور شوکت خانم کیلئے چندہ اکٹھاکیا۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد خوف سے جب کوئی چندہ دینے کو تیار نہ تھا‘ اکبر چوہدری نے جان کیری سے دو ہزار ڈالرز چندہ لیا اور چیک کی فوٹو کاپیاں دوسروں کو دکھا کر چندہ لے کر شوکت خانم کو بھیجا ۔ پچھلے سال اکبر چوہدری پاکستان آئے ‘ ان کے ساتھ کچھ لوگ تھے جو پاکستان میں پراجیکٹ کرنا چاہتے تھے۔ وزیر اعظم تو دور کی بات کسی وزیر کے پاس بھی ٹائم نہ تھا۔ عامر متین نے دو تین وزیروں سے کہہ کر ملاقات کا بندوبست کرایا کہ اکبرچوہدری امریکی مہمانوں کے سامنے شرمندہ نہ ہوں ۔ نیویارک کے عارف سونی جیسے لوگوں کے نام کبھی سنے جنہوں نے ہسپتالوں کو چندے دیے اور پاکستانیوں کی مدد کی؟ میامی سے مشتاق احمد جاوید جیسے لوگوں کا سنا جنہوں نے قصور میں اخوت یونیورسٹی بنانے میں اہم رول ادا کیا ؟ آپ نے کبھی ڈاکٹر سعید احمد باجوہ کا نام سنا جو 2005 ء کے زلزے کے بعد ہفتوں پاکستان آکر لوگوں کا مفت علاج کرتے رہے؟ اس طرح کئی گمنام اوورسیز پاکستانی ہیروز ہیں جنہوں نے پاکستان کیلئے بہت کچھ کیا اور صلہ نہیں مانگا ۔ عمران خان صاحب نے کبھی سوچا کہ ایسے لوگوں کو” نشان ِپاکستان‘‘ ہی دے دیں؟
پاکستان میں ہزاروں بیوروکریٹس نے بیرون ملک شہریتیں لے رکھی ہیں۔ بچے باہر ہیں اور خود پاکستان سے کما کر انہیں بھیج رہے ہیں۔ اب بتائیں یہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے ؟ ابھی ایک ڈی آئی جی نے کینیڈا میں بیس لاکھ ڈالرز کا گھر خرید کر بچے سیٹل کیے ہیں‘ کل کو وہ دہری شہریت لے کر ہمارا وزیر داخلہ ہوگا جیسے رحمن ملک لندن سے آکر بن گئے تھے۔ اب بتائیں اس ملک کو کیسے چلائیں جس ملک کا ایک وزیراعظم اقامہ ہولڈر‘ معین قریشی غیرملکی شہریت کے حامل اور شوکت عزیز مشکوک سٹیٹس کے مالک تھے ؟ دنیا کے کتنے ملک ہیں جہاں دہری شہریت والے کابینہ میں بیٹھے ہوتے ہیں؟ بھارت میں دہری شہریت والوں کو صرف دو سہولتیں ہیں ‘ ملٹی پل ویزا اور تھانے رپورٹ نہیں کرنی پڑتی۔ وہ بھارتی الیکشن نہیں لڑ سکتے‘حکومتی یا سرکاری عہدہ نہیں رکھ سکتے‘ سرکاری نوکری اور ووٹ تک نہیں ڈال سکتے‘ زرعی زمین تک نہیں خرید سکتے اور وہ ہر سال بھارت ستر ارب ڈالرز بھیجتے ہیں اور اپنی حکومت اور اپنے لوگوں کو بار بار جتلاتے بھی نہیں کہ ہم آپ کو ڈالرز بھیج رہے ہیں ۔
میں نے اس دوست سے کہا: حیرانی ہے کہ آپ فون کر کے مجھے بتارہے ہیں کہ اوورسیز پاکستانی مجھ سے ناراض ہیں ‘عمران خان سے ناراض نہیں جنہوں نے وزیراعظم بنتے ہی آدھی کابینہ یار دوستوں سے بھر دی جن کی وفاداری ‘ شہریت اور حلف کے خلاف خود بائیس برس تقریریں کرتے رہے۔ کمال کرتے ہو پانڈے جی ۔ اس پر اس دوست نے فون بند کر دیا۔(بشکریہ دنیا)۔۔