تحریر: سید عارف مصطفیٰ
بقول خود ، زنا سے بچنے کے لیئے دوسری شادی پہ مجبور ہوجانے والے عوامی کمپیئر اور دینی اسکالر کا امیج حاصل کرنے والے عامر لیاقت نے گزشتہ دنوں ایک ٹی وی چینل پہ انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ انکی دوسری بیوی ٹی وی پہ ڈراموں میں کام کرے بلکہ چاہے تو فلموں میں بھی کام کرے کیونکہ وہ بہت روشن خیال شخص ہیں اور اس بارے میں وہ خود بھی انکا ساتھ دینے کے متمنی ہیں یعنی فلم میں اداکاری کے جلوے بکھیرنا چاہتے ہیں ،، یہ ٹھیک ہے کہ انکا یہ بیان اپنی عمر سے آدھی عمر والی زوجہ جو انکی بیٹی سے محض چند برس بڑی ہے کےلاڈ اٹھانے کی ایک بزرگانہ کوشش شمار کیا جاسکتا ہے لیکن انکی اپنی نوبیاہتا نئی نویلی دلہن کی محبت میں اس درجہ پاگل ہوجانا بہت سوں کو حیران کرگیا کیونکہ ابھی تک لوگ یہ بات بھولے نہیں کہ انکی اٹھان اور پہچان کا بنیادی حوالہ ایک اسلامی اسکالر ہونا ہے اور انہوں نے یہ تشخص کئی برس تک ٹی وی کے مختلف چینلز پہ خالص اسلامی فقہی پروگراموں کے میزبان کے طور حاصل کیا اور ایک اسلامی اسکالر کی دین کے تقاضوں سے اس قدر دوری کے حالیہ نظریات نے انکے اس تشخص کو بری طرح سے مسخ کرکے رکھ دیا کیونکہ دین کو ایسا طرز عمل ہرگز پرگز مطلوب نہیں ہے بلکہ یہ تو شریعت کا کھلا مذاق اڑانے کے مترادف ہے اس لیئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ یا تو پہلے منافقت کررہے تھے یا اب کررہے ہیں۔۔
جو سادے لوگ انکی اصلی شخصیت سے پوری طرح شناسائی نہیں رکھتے وہ یہ پوچھتے پھر رہے ہیں کہ یہ اسکالر صاحب آخر دین متین کی کس سہولت یا رعایت سے فائدہ اٹھا کے یہ جسارت کر رہے ہیں اور شریعت میں اس طرح کی سرگرمیوں کی گنجائش بھلا کہاں دی گئی ہے بلکہ درحقیقت اس طرح کے معاملات تو اسلام کے تقاضوں سے قطعی متصادم ہیں – لوگوں کو اچھی طرح سے یاد ہے کہ وہ ٹی وی پروگراموں میں اس دین سے اپنی وابستگی اور عشق رسالت کو اپنا اثاثہ قرار دیتے نہیں تھکتے تھے اور ابھی 5 ماہ پہلے جب وہ قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے تھے تو انکے نہایت بڑے بڑے بینرز میں انکی شخصیت کو خصوصی طور پہ محافظ ختم نبؤت ٹہرایا گیا تھا اور ان دنوں انکے بیانات عشق رسالت اور دین کی سربلندی کے جذبات سے لبریز ہوا کرتے تھے- اسی طرح الیکشن سے قبل وہ گزشتہ نومبر میں تحریک لبیک کے دھرنے کے کراچی چیپٹر جاپہنچے تھے اور ناموس رسالت کے حوالے سے انکی آتش فشاں تقریر نے بڑا رنگ جمایا تھا – یہ وہی تحریک لبیک ہے کہ جسکے قائد کو وہ اب اپنے پیج پہ منہ بھر بھر کے سناتے ہیں حتیٰ کے انکو’لنگڑا شیطان’ تک قرار دے ڈالتے ہیں – تو ان سے بہت سے لوگوں کا سوال یہ ہے کہ کیا عامر لیاقت کی ایسی باتیں اور ایسی سوچ اسی نبی کی تعلیمات کی تضحیک نہیں ہیں ۔۔۔
وہ چاہیں بھی تو لوگوں کے ذہنوں پہ ثبت اپنی شخصیت کا وہ نقش نہیں مٹاسکتے کہ جس میں وہ اہم مقدس راتوں میں ٹی وی پہ عالم دین کی مسند پہ بیٹھ کے اور سر پہ دستارفضیلت رکھ کے کڑکڑاتے خطبوں سے زبردست رنگ جماتے تھے اور گڑگڑاتی دعاؤں سے خود بھی روتے تھے اور حاضرین کو بھی رلاتے تھے ۔۔۔ لیکن اب یہ ثابت ہورہا ہے کہ یہ سب رقت آمیزی ، دراصل چھلانگیں مارکے آگے بڑھنے کی عیاری کے سوا کچھ بھی نہیں تھی اور انکی شخصیت کے متعدد تضادات سے اب یہ پوری طرح عیاں ہوچلا ہے کہ اسلام اور عشق رسالت کے جذبے و عقیدت کو انہوں نے مال تجارت کے سوا کچھ بھی نہیں سمجھا – اور یہ اللہ کی حکمتوں میں سے ہے کہ کہاب وہ انکی شخصیت کی پرتیں کھول رہا ہے اور انکی اصلیت کو بینقاب کرتا جارہا ہے اور وہ ہدایت کے رستے سے دور اس ویرانے میں بھٹکتے چلے جارہے ہیں کہ جہاں اب وہ چند خوشامدی بھی دستیاب نہ رہیں گے جو ہر وقت جبہ و دستار سنبھالے ایک بڑے چیک کی امید میں اور ٹی وی اسکرین پہ جلوہ گری کی لالچ میں انکی جی حضوری کے لیئے دستیاب رہتے تھے اور انکی ڈاکٹری کے جعلی پن سے آگہی کے باوجود انہیں ڈاکٹر صاحب ڈاکٹر صاحب کہتے نہیں تھکتے ۔۔ حتیٰ کہ وہ ‘سرسبز و شاداب’ نامور سماجی کارکن بھی کہ جو ساری سماجی خدمات چھوڑ چھاڑکے سارا سارا دن انکے شوز میں سامنے رکھے ایک صوفے پہ ساکت و جامد دھرے پڑے رہتے ہیں ۔۔ (سید عارف مصطفی)۔۔
(تحریر نگار کے خیالات اور تحریرسے ہماری ویب کا متفق ہونا ضروری نہیں، علی عمران جونیئر)۔۔