shoaib jutt ne ghair ikhlaqi harkat ki

14بار برطانیہ میں نشریاتی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی

فیکٹ فوکس ویب سائٹ کی جانب سے پاپا جونز اور باجکو گروپ کے حوالے سے ایک خبر کو جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے ساتھ جوڑنے کے بعد اے آر وائی نیوز برطانیہ کے براڈکاسٹر نیو ویژن ٹیلی ویژن (این وی ٹی وی) کی جانب سے عائد کیے جانے والے ایک غلط الزام پر برطانیہ میں ٹی وی میڈیا کے نگران ادارے آفکام نے دی نیوز کے صحافی فخر درانی کی جانب سے درج کرائی جانے والی قانونی نوعیت کی ایک شکایت پر ان کے حق میں فیصلہ سنایا ہے۔اس تازہ ترین فیصلے کے بعد، یہ طے ہو چکا ہے کہ اے آر وائی نیوز نے 14ویں مرتبہ برطانیہ میں نشریاتی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔ آفکام نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ این وی ٹی وی نے فخر درانی کیخلاف الزامات عائد کرنے کے معاملے میں احتیاط کا مظاہرہ نہیں کیا اور شواہد پیش نہیں کیے گئے اور اس انداز سے انہیں نظر انداز کیا گیا جو فخر درانی کے ساتھ کیا جانے والا غیر منصفانہ اقدام ہے۔فخر درانی نے شکایت کی تھی کہ این وی ٹی وی نے ٹی وی پر ان کی تصویریں دکھائیں اور انہیں پاکستان کا غدار بنا کر پیش کیا گیا جس سے ان کی اور ان کے اہل خانہ کی زندگی کو خطرات لاحق ہوگئے تھے۔انہوں نے ریگولیٹر کو بتایا کہ انہیں صحافی احمد نورانی اور ایس ای سی پی کے ملازم ارسلان ظفر اور ایس ای سی او کے سابق چیئرمین ظفر حجازی کے ساتھ جوڑا گیا تاکہ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کیخلاف سازش کی جھوٹی خبر تخلیق کی جا سکے۔این وی ٹی وی پر فخر درانی کیخلاف الزامات اس وقت سامنے  آئے جب احمد نورانی نے فیکٹ فوکس پر 27؍ اگست 2020ء کو ایک خبر شائع کی جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ جنرل عاصم باجوہ کی فیملی نے امریکا میں بہت زیادہ دولت اکٹھا کر لی ہے اور عاصم باجوہ کی فیملی کے کاروبار کا ان کے فوج میں کیریئر کے ساتھ براہِ راست تعلق ہے۔وزیراعظم عمران خان کے سابق معاون خصوصی جنرل (ر) عاصم باجوہ نے کہا تھا کہ یہ دولت ان کے بھائیوں نے پاپا جونز پیزا ریستوران اور فرنچائزز میں سرمایہ کاری کرکے کمائی ہے اور اس میں کوئی کرپشن نہیں۔اے آر وائی / این وی ٹی وی نے اپنے نیوز بلیٹن اور پاور پلے اور رپورٹرز نامی ٹاک شوز میں فخر درانی کو غدار ثابت کرنے کی کوشش کی۔ٹی وی چینل کا دعویٰ تھا کہ اس نے اُس ٹرائیکا کو بے نقاب کر دیا ہے جس نے جنرل عاصم باجوہ کی فیملی کمپنیوں کے حوالے سے معلومات ریٹائرڈ بھارتی ملٹری افسر میجر گورو آریہ کو شیئر کی تھیں۔ حقیقت میں ان الزامات میں کوئی سچائی نہیں تھی اور ان میں سے کسی صحافی نے میجر آریہ کو کوئی خبر شیئر نہیں کی تھی۔اے آر وائی / این وی ٹی وی نے فخر درانی کا تعلق احمد نورانی اور فیکٹ فوکس کی رپورٹر عمارہ شاہ کے ساتھ بھی جوڑا۔ فخر درانی نے اپنی شکایت میں کہا تھا کہ جنگ گروپ چھوڑنے کے بعد احمد نورانی 2020ء میں امریکا منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے اپنا فیکٹ فوکس کے نام سے اپنا ڈیجیٹل پلیٹ فارم شروع کیا جس میں ان کا اپنا اسٹاف اور صحافی اور ا یڈیٹرز ہیں۔فخر درانی کا کہنا تھا کہ ان کا فیکٹ فوکس یا احمد نورانی سے کوئی تعلق نہیں۔این وی ٹی وی نے آفکام کے ابتدائی جائزے کو تسلیم نہیں کیا اور فخر درانی کی شکایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شکایت میں اس حوالے سے شفافیت کا اظہار نہیں کیا گیا کہ عمارہ شاہ احمد نورانی کیلئے کام کرتی ہیں جو خود جنگ گروپ میں فخر درانی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔این وی ٹی وی کا کہنا تھا کہ فخڑ درانی، احمد نورانی اور عمارہ کا نام ایس ای سی پی کی اُس انکوائری میں سامنے آیا ہے جو یہ معلومات لیک کرنے کے متعلق کی گئی تھی اور ان تینوں افراد کا ایک دوسرے کے ساتھ پیشہ ورانہ تعلق ہے۔اس حوالے سے آفکام نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کچھ ناظرین فخر درانی کے نام سے اور بحیثیت صحافی ان کے کام سے واقف ہوں گے۔ تاہم، آفکام کا کہنا تھا کہ فخر درانی کا نام براہِ راست فیکٹ فوکس پر شائع ہونے والے آرٹیکل میں نہیں آیا اور ادارہ سمجھتا ہے کہ یہ خبر احمد نورانی کی شائع کردہ ہے۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں