عمران یات
علی عمران جونیئر
دوستو،زیادہ پرانی بات نہیں پنجاب کے ایک علاقے کھاریاں میں خواجہ سراؤں نے پولیس والوں پر حملہ کردیا۔ حملہ اتنا شدید تھا کہ پولیس اہلکاروں کی دوڑیں لگ گئیں، بعد میں یہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل کیا گیا اور پولیس اہلکاروں نے خواجہ سراؤں سے معافی بھی مانگی۔۔ تازہ واقعہ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما رؤف حسن پر خواجہ سراؤں کے حملے کا ہے، پی ٹی آئی کے حامی کہہ رہے ہیں کہ خواجہ سرا حملے کے دوران رؤف حسن کی گردن کو نشانہ بناناچاہ رہے تھے۔بہرحال اب اس کی تحقیقات بھی شروع کردی گئی ہیں، یہ معاملہ بھی لیاقت علی خان کے قتل، بے نظیر بھٹو شہید کی اندوہناک شہادت، عمران خان پر قاتلانہ حملے کی طرح ثابت ہوگا جس کی کبھی گتھی سلجھائی نہ جاسکے گی۔ ہمیں یاد آرہا ہے ایک معروف اینکرپرسن اور صحافی سمیع ابراہیم پر بھی ان کے چینل کے دفتر کے باہر خواجہ سراؤں نے حملہ کیا تھا،جس میں سمیع ابراہیم بچ گئے تھے، رؤف حسن پر بھی حملہ ایک ٹی وی چینل کے دفتر کے باہر کیا گیا۔۔ٹی وی چینلز پر کام کرنے والے ہوشیار ہوجائیں ”کھسراگردی“ شروع ہوگئی ہے۔۔
پاکستانی مرد اس سے بڑی گالی کوئی نہیں سمجھتا کہ کوئی اسے خواجہ سرا یا کھسرا کہہ دے۔ ان کی قسمت میں یہی دیکھا گیا ہے کہ وہ یا تو بھیک مانگیں یا ناچیں گائیں۔اپنے گھر والوں سے بھی گالیاں کھائیں اور بازار میں بھی رسوا ہوں۔ ایسے ماحول میں اگر کوئی اپنے حقوق کی بات کرنے والا یا پڑھا لکھا خواجہ سرا نظر آ جائے تو ہماری مشرقی روایات خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔کچھ عرصہ پہلے ایک نجی ٹی وی چینل کی وڈیو سوشل میڈیا پر بڑی وائرل ہوئی تھی جس میں خاتون نیوزاینکر ”بریکنگ“ نیوز پورے جذبات سے چیخ چیخ کر پڑھ رہی تھیں کہ۔۔ بلوچستان کے علاقے چمن میں خواجہ سرا کی وبا پھیل گئی ہے اور خواجہ سرا کی وبا سے پانچ بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ چونکہ یہ ”بریکنگ نیوز“ تھی لال ڈبے بھی گھوم رہے تھے جس میں صاف لکھا تھا کہ خسرے کی وبا سے پانچ بچے جاں بحق۔۔اس لئے خاتون اینکر بھی اپنے خواجہ سرا والے جملے کو بار بار دھرا رہی تھی۔۔ جب کہ اصل ایشو یہ ہے کہ نیوز کاسٹر کو خسرہ کی وبا کی فوری خبر کا کہا گیا ہے اور وہ خسرہ کو کھسرا سمجھ کر کھسرا لفظ اچھا نہ لگنے کی وجہ سے خواجہ سرا کا لفظ اپنے فوری خبر کی زینت بنا دیتی ہے۔اسی طرح جب وزیراعظم چین کے شہر ”بیجنگ“ میں موجود تھے تو پی ٹی وی کی لائیو نشریات میں ”بیجنگ“ کی بجائے ”بیگنگ“ لکھا گیا، جس کا مطلب ہے بھیک مانگنا۔ جب حزبِ مخالف نے بھد اڑائی تو حکومت نے ”ذمہ دار“ کو برطرف کر دیا،کیونکہ اس میں بظاہر وزیراعظم کی بے عزتی محسوس ہو رہی تھی۔۔
چند اوباش کھسروں کے ڈیرے میں گھس گئے اور گرو کو سب سے کم سن اور خوبصورت کھسرے کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ گرو نے مطلوبہ کھسرے کو تیار شیار کرکے اس کو انکے ساتھ برابر والے کمرے میں بھیج دیا اور خود باہر برابر شور مچاتا رہا چھوڑ دو اسے، ہم ایسے نہیں ہیں، اللہ تمہیں غارت کرے۔۔کام پورا ہونے کے بعد بدمعاش کمرے سے نکلے اور گرو سے بولے تم اسے اندر بھیج کے باہر شور کیوں مچا رہے تھے۔گرو اپنی مخصوص تالی بجا کے بولا۔۔ کاکا ساڈی وی محلے داری اے لوکاں پتا چلے کہ اسیں بڑی کھپ پائی سی۔(محلے میں ہماری بھی کچھ عزت ہے لوگوں کو پتا تو چلے کہ ہم نے بہت مزاحمت کی تھی)۔ اسی طرح ایک کھسرا رضاکار بھرتی ہوگیا جب اسے محاذ جنگ پر بھیجا گیا تو وہاں اندھا دھند گولیاں چل رہی تھیں، وہ گھبراکر واپس آگیا۔ لوگوں نے واپس آنے کی وجہ پوچھی۔۔ تو کہنے لگا۔۔ وہاں اندھادھند ایسے گولیاں چلارہے تھے بھلے کسی کی آنکھ میں لگ جائے۔۔ہمیں یاد آرہا ہے لیجنڈ اداکار عابد علی کی صاحبزادی جو معروف اداکارہ اور ماڈل بھی ہیں، ایک ٹی وی شو میں انٹرویو دے رہی تھیں۔۔ اداکارہ ایمان علی نے دوران انٹرویو جہاں مختلف موضوعات پر بات چیت کی، وہیں سوشل میڈیا پر زیادہ فعال نہ ہونے اور شادی کے بعد زندگی میں آنے والی تبدیلی پر بھی کھل کر تبصرہ کیا۔ تاہم دوران اپنی احساس کمتری کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے ایسا جملہ بول ڈالا، جس سامعین کو چونکنے پر مجبور کر دیا۔میزبان واسع چودھری کے شومیں گفتگو کرتے ہوئے اداکارہ ایمان علی کا کہنا تھا کہ میں یہ کافی انٹریوز میں کہہ چکی ہوں کہ مجھے اپنا ظاہر بالکل بھی پسند نہیں حالانکہ لوگ مجھے بے حد پسند کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ آپ بہت خوبصورت ہیں لیکن وہ اپنے ہی چہرے کی مداح نہیں ہیں، یہ وجہ کہ وہ زیادہ اپنی تصویریں نہیں لیتی ہیں۔اداکارہ ایمان علی کا مزید کہنا تھا کہ جب وہ خود کو (آئینہ) شیشے میں دیکھتی ہوں تو مجھے لگتا ہے، لوگ جھوٹ بول رہے ہیں اور صرف یہی نہیں میں جب موبائل میں سیلفیاں لیتی ہوں تو مختلف زاویوں سے لینے کی کوشش کرتی ہوں کہ شاید کوئی اچھی آجائے لیکن پھر خود کو دیکھتی ہوں تو لگتا ہے کوئی خواجہ سرا کھڑا ہوا ہے۔۔۔
ایک بار ہم نے باباجی سے پوچھا۔۔ یہ لاہور میں خواجہ سرا، نہر کے کنارے کیوں کھڑے نظر آتے ہیں۔۔باباجی نے بغور ہماری طرف دیکھا پھر پراسرار سی لیکن مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ فرمانے لگے۔۔تاکہ وہ تروتازہ رہ سکیں۔۔ہم نے باباجی کا جواب سنا ان سنا کرتے ہوئے اگلا سوال داغا۔۔ تو پھر کراچی میں ٹریفک سگنلز پر کھڑے کیوں نظر آتے ہیں۔۔ باباجی نے برجستہ کہا۔۔تاکہ گاڑی والے تروتازہ رہ سکیں۔۔باباجی کے جوابات سن کر ہم نے انہیں کہا۔۔باباجی ایک تازہ لطیفہ سنیئے۔۔باباجی ہمہ تن گوش ہوئے تو ہم نے کہا۔۔ایک ماہرِ نفسیات نے مریض سے کہا میں تصویر بناؤں گا تمہارے ذہن میں جو خیال آئے بتانا،ڈاکٹر نے دائرہ بنایا مریض نے کہا جنس۔۔ڈاکٹر نے تکون بنائی مریض نے کہا جنس۔۔ڈاکٹر نے چوکور بنائی مریض نے کہا جنس۔۔ڈاکٹر تپ گیا، غصے سے بولا۔۔ لگتا ہے تمہارے اعصاب پر جنس سوار ہے۔۔مریض نے معصومانہ لہجے میں کہا۔۔ آپ عجیب ڈاکٹر ہیں آپ خود فحش تصویریں بنا رہے ہیں اور مجھے کہتے ہیں میرے اعصاب پر جنس سوار ہے۔بالکل اسی طرح سوشل میڈیا پر قوم کے اعصاب پر کھسرے سوار ہیں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔فاسٹ فوڈ کھانے سے آدمی فاسٹ نہیں ہوجاتا۔اسمارٹ فون رکھنے سے آدمی اسمارٹ نہیں ہوجاتا۔لیکن لوز موشن ہونے سے آدمی لوز ضرور ہوجاتا ہے،اس لئے گرمیوں کے اس موسم میں اپنے کھانے پینے کا خاص خیال رکھیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔