خصوصی رپورٹ۔۔
ایسا لگتا ہے کہ پسِ پردہ سب کچھ طے ہو چکا ہے وہ اسی لئے واپس آ رہا ہے کہ اسے اقتدار تک کا راستہ واضح نظر آ رہا ہے۔معاملات صرف اس کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہی طے نہیں ہوئے بلکہ اس حوالے سے پاکستان کے دوست ممالک کی معاونت بھی شامل نظر آتی ہے۔ میری رائے ہے کہ اگر یہ سب کچھ طے نہ ہوا ہوتا تو وہ واپس ہی نہ آتا۔ یہ بھی صاف نظر آرہا ہے کہ اگر وہ 21 اکتوبر کو واپس آگیا تو وہ جیل نہیں جائے گا بلکہ اسے ریلیف دے کر سیاسی میدان میں فری ہینڈ دیا جائے گا۔سینئر صحافی وتجزیہ کار سہیل وڑائچ نے “جیو ” میں شائع ہونیوالے اپنے بلاگ بعنوان “وہ آکر کیا کرے؟” میں اہم تفصیلات شیئر کر دیں ۔
اپنے بلاگ میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دوست ممالک نے پاکستان کی مالی امداد کا جو اشارہ دے رکھا ہے اس کے لئے شرط یہ باندھی گئی ہے کہ ایسا سیاسی چہرہ لایا جائے جو لانگ ٹرم معاشی پالیسی کی ضمانت دے۔ یہ بھی تقریباً طے ہے کہ اگر وہ واپس آتا ہے تو پھر الیکشن کروائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوگا اور جب ملک میں الیکشن کی سیاست ہوگی تو پھر تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے بارے میں بھی فیصلے جلد از جلد کرنا پڑیں گے۔عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ واپس آکر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین کے خلاف جاری منتقمانہ پالیسیوں کا حصہ بنے گا اور جوکچھ خود اس کے اور اس کی پارٹی کے ساتھ ہوا تھا، اس کا بدلہ لے گا۔ میری ذاتی رائے ہے کہ اگر انتقام لینا ڈیل کا حصہ ہے تو اُسے یہ نہیں کرنا چاہئے اُسے انتقام اور بدلے کی سیاست کا خاتمہ کرنا ہوگا، جو کچھ تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے اسے روکنا ہوگا۔ میری یہ رائے نئی نہیں ہے، میں 19 اگست 2022ء کو لندن میں نواز شریف سے ملا تھا اور یہ عرض کیا تھا کہ آپ 3بار وزیر اعظم پاکستان رہے ہیں ملک کے سب سے سینئر اور تجربہ کار سیاستدان ہیں آپ کو چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف انتقام کا حصہ نہیں بننا چاہئے۔ نواز شریف نے میری رائے سے اتفاق نہ کیا اور کہا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین سیاستدان نہیں بلکہ وہ تو سیاست اور سیاست دانوں کے سرے سے ہی مخالف ہیں اب جبکہ وہ خود اپنی ہی پالیسیوں کی سزا بھگت رہے ہیں تو ہمیں ان کو بچانے کی کیا ضرورت ہے۔
اپنے بلاگ کے آخر میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ دوسری طرف چیئرمین تحریک انصاف کو بھی نفرت، غصے اور انتقام کو خیرباد کہنا ہوگا، اپنے مخالفین اور ان کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا ہو گا، ملک کو آگے چلانا ہے، جمہوریت اور آئین کو برقرار رکھنا ہے تو اس راہ کو اپنانا ہو گا۔ ہم نے گالیوں اور احتساب کی سیاست بہت دیکھ لی، نہ اس سے ملک کا کوئی سیاسی فائدہ ہوا اور نہ ہی کوئی معاشی فائدہ، بلکہ اس سے معاشرہ تقسیم ہوا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ساری سیاسی قوتیں اس عمل کی راہ روکیں اور اس حوالے سے سب سے بڑا کردار اس کا ہے جو چار سال بعد واپس آ رہا ہے اگر وہ انتقام میں چلتا رہا تو مایوسی اور بڑھے گی، ہاں البتہ اس نے مفاہمت کی راہ اپنائی تو ملک میں امید کی روشنی نظر آنا شروع ہو جائے گی۔