صدر آصف علی زرداری نے رواں سال 29 جنوری کو پیکا ترمیمی بل پر دستخط کیے تھے جس کے خلاف صحافیوں نے یوم سیاہ منایا تھا، ترمیمی قانون کے نفاذ کے بعد اس ایکٹ کے تحت مقدمات میں تیزی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری کا کہنا ہے کہ ’صحافیوں کو اظہارِ رائے کی آزادی ہونی چاہیے یہ جمہوریت کا حسن ہے اگر تنقید بھی ہو اس کو اصلاح کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ملک میں اور ملک کے باہر پاکستان کے خلاف پراپیگینڈہ فیکٹریز کام کر رہی ہیں کسی بھی حکومت کے لیے ان کو ہینڈل کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے لیکن قوانین بنا دیے جائیں، ریگولیٹ کیا جائے تو اس میں بہتری آ سکتی ہے تاہم اس قانون کا ناجائز استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ ہم کہتے ہیں حقائق رپورٹ ہوں پراپگینڈہ نہیں۔شازیہ مری سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ سمجھتی ہیں کہ پیکا ایکٹ کا استعمال درست سمت میں ہو رہا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’غلطی ہو رہی ہو گی ایف آئی اے یا کوئی ادارہ کر رہا ہو گا۔ کسی کو تکلیف یا اذیت نہیں پہنچانی چاہیے۔وہ سمجھتی ہیں کہ جو قانون پر عمل درآمد کرنے والے ہیں انھیں بھی جوابدہ سمجھنا چاہیے جن کو قانون کا سامنا ہے انھیں بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔وہ کہتی ہیں کہ ’پیکا ترمیم پر پیپلز پارٹی کی یہ بات ہوئی تھی کہ اس میں سیف گارڈز کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ اس سے انسانی حقوق متاثر نہ ہوں اور بے گناہ لوگ نہ پھنسیں، ہم نے بہت ساری تجاویز پیش کیں اور پروٹیکشن کو یقینی بنایا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’معاشرہ ڈس انفارمیشن اور پراپیگینڈہ کا سامنا کر رہا ہے جس کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہو رہے ہیں کسی کو بھی احتساب سے بری الذمہ نہیں ہونا چاہیے اور چیک اینڈ بیلنس رکھنا ضروری ہے۔انھوں نے بتایا کہ وہ خود بھی فیک نیوز کی متاثرہ ہیں۔ ایک نام نہاد صحافی نے سوشل میڈیا پر خبر دی کہ ان کے گھر سے 97 ارب ڈالر برآمد ہوئے ہیں اس وقت وہ فیملی کے ساتھ کھانے کی دعوت پر تھیں اس پراپیگنڈہ نے انھیں اذیت پہنچائی۔