shartiya meetha | Imran Junior

زہین عورتیں

علی عمران جونیئر

دوستو،دنیا میں دو قسم کی خواتین پائی جاتی ہیں، ذہین یا بے وقوف اور سیدھی سادی۔اسی طرح دنیا میں دو اقسام کی بیویاں پائی جاتی ہیں، اچھی اور بری، اچھی بیوی اچھی طرح سے شوہر کو پریشان کرتی ہے اور بری بیوی بری طرح سے شوہر کو پریشان کرتی ہے۔ ایک خبر نظروں سے گزری جس کے مطابق برطانیہ میں 20 سال سے شادی کی منتظر خاتون نے اچھا مرد نہ ملنے پر خود سے ہی شادی کر لی۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق 42 سالہ خاتون سارہ ولکنسن نے اپنی شادی کیلئے خود ہی تقریب کا انعقاد کیا اور منگنی کیلئے انگوٹھی بھی خریدی جو انہوں نے خود کو پہنائی اور تقریب میں اپنے دوستوں کو بھی دعوت دی۔کریڈٹ کنٹرولر کے طور پر کام کرنے والی خاتون ولکنسن نے کہا کہ یہ میرے لئے توجہ کا مرکز بننے کا ایک خوبصورت دن تھا، یہ تقریب باقاعدہ شادی نہیں تھی لیکن میری شادی کا دن تھا۔خاتون نے بتایا کہ انہوں نے 10 ہزار پاؤنڈز کی رقم تقریب پر خرچ کی جو انہوں نے ہر ماہ بچا کر جمع کی تھی،خود سے شادی کے بارے میں سن کر میرے دوست حیران نہیں ہوئے تھے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق تقریب میں 40 افراد نے شرکت کی تھی جس میں سارہ ولکنسن کے خاندان کے افراد اور دوست شامل تھے۔

کچھ بیگمات بھولی اور معصوم ہوتی ہیں۔ ایک شوہر بتارہے تھے کہ کل میں نے بیگم سے کہا ڈیٹ پر چلتے ہیں، ڈنر باہر کریں گے، بیگم نے کہا عشا پڑھ کر چلتے ہیں، پوری تسلی سے سترہ رکعات پوری کیں، گھر کی حفاظت کا وظیفہ کیا، شوہر کو قابو رکھنے کا وظیفہ کیا، سارے گھر پر، سب کو دم کیا۔۔ اور تھک گئیں۔۔کہنے لگیں۔۔ ڈیٹ ویسے بھی انگریزوں والی حرکت ہے اور غیر اسلامی کام ہے۔۔ پھر ہم دونوں کروٹ بدل کر سو گئے۔۔ رات آنکھ کھلی تو تہجد چل رہی تھی،کچھ شوخی سوجھی دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔۔ مگر خشمگیں نگاہ کی تاب نہ آئی ،فجر ادا کی اور سو گئے۔۔اگلی شام سیکریٹری کے ساتھ ڈیٹ پر گیا،اسے ڈنر کرایا، ہاتھ بھی پکڑا،کچھ شوخیاں بھی کر گزرے، رات دیر گئے اسے اس کے گھر ڈراپ کیا،اپنے گھر پہنچے۔ بیگم جائے نماز پر بیٹھی شوہر قابو کرنے کا وظیفہ کر رہی تھی اور آسمان سے اترا کوئی مقدس فرشتہ معلوم ہو رہی تھی۔خدا نظر بد سے بچائے۔ آمین۔۔اگر آپ نے عمیرہ احمد کا ناول”پیرِ کامل” پڑھا ہے تو آپ کو یہ واقعہ پڑھنے میں بڑا مزہ آئے گا۔۔۔”سالار ایک نہایت ہی دردِ دل رکھنے والا حساس نوجوان تھا معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی پر اکثر پریشان رہتا تھا۔اسے اس بات سے سخت نفرت تھی کہ لڑکیاں سارا دن موبائل میں گم رہیں۔نہ بچوں کی پرواہ نہ شوہر کا خیال نہ گھر کا ہوش۔سالار نے تہیہ کیا ہوا تھا کہ وہ شادی ایسی لڑکی سے کرے گا جس نے ساری زندگی موبائل کی شکل تک نادیکھی ہو۔اس لئے جب بھی سالار کے والد سکندر عثمان سالار کے لئے کوئی رشتہ لاتے سالار سب سے پہلے اپنا نوکیا 3310 سامنے نکال کے رکھ دیتا اور لڑکی سے پوچھتا یہ کیا ہے؟جو بھی کہتی یہ موبائل ہے سالار اسے ریجکٹ کر دیتا۔آخر کار ایک دن سالار کی قسمت جاگی اور ایک پری وش لڑکی کا رشتہ آیا۔۔سالار نے حسب معمول نوکیا 3310 اس کے سامنے رکھا، اور پوچھا کہ بتائیں یہ کیا ہے؟؟پری وش نے حیرانی سے موبائل کی طرف دیکھا اور کہاکہ اسے نہیں پتا یہ کیا ہے۔شاید کوئی پیپر ویٹ ہے۔۔سالار کی خوشی کی انتہا نا رہی،آخر کار اسے اس کی سپنوں کی رانی مل ہی گئی تھی۔دھوم دھام سے شادی ہوئی اور سالار نے شادی والے دن اپنا موبائل نکال کر پری وش سے کہا۔۔بھلئیے لوکے یہ موبائل ہے جس سے میں کال کرتا اور سنتا ہوں۔پری وش پر غش کا دورہ پڑا اور حیرانی سے کہا،اس وٹے کو آپ موبائل کہتے ہیں۔پری وش نے اپنے پرس میں سے آئی فون 15 پرو نکال کردکھایا اور کہاموبائل یہ ہوتا ہے۔اور ایک سو پچاس سے زائد آئی کیو لیول رکھنے والا انسان کتنی آسانی سے دھوکا کھا گیا تھا۔۔”

خاتون کا شوہر بے وفا ہوگیا۔۔افواہ تھی کہ وہ کسی دوسری عورت سے خفیہ شادی کر چکا ہے۔۔ایسے میں پھر پیر فقیر یاد آتے ہیں۔ اسے پتہ چلا کہ فلاں پہاڑی پر ایک پہنچے ہوئے بزرگ کی خانقاہ ہے۔ خاتون اس بزرگ کے پاس گئی۔۔بڑی مشکل سے جب خانقاہ پہنچی تو بزرگ نے پوچھا۔۔ کیسے آنا ہوا؟خاتون بولی۔۔ میں نے اپنی زندگی کے بیس بہترین سال جس کو دیے، دن رات جس کی خدمت کی وہ مجھے بھول کر کسی دوسری عورت کے چکر میں پڑ گیا ہے۔۔بزرگ نے مٹھائی کا ایک ڈبہ کھولا اور خاتون سے کہا۔۔ لیں یہ مٹھائی چیک کریں اور پھر بتائیں کہ یہ واقعہ کب اور کیسے ہوا؟۔۔خاتون نے ایک لڈو اٹھایا اور کھالیا۔ اسے مٹھائی اچھی لگی تو دوسری اٹھائی اور کھالی۔ مٹھائی کھاتے کھاتے ساری سنی افواہیں دہرا دیں۔۔مٹھائی کھاتی گئی اور کہانیاں سناتی گئی۔۔افواہوں اور جن خواتین پر اسے شک تھا ان کی تعداد شائد زیادہ تھی کہ مٹھائی کا ڈبہ ساتھ نہیں دے پایا،ڈبہ خالی کر گئی۔۔بزرگ نے خاتون سے کہا۔ میں نے آپ کو ایک لڈو کھانے کو کہا تھا،آپ سارا ڈبہ کھا گئیں،اس سے آپ کو کیا سمجھ آئی.؟خاتون نے کچھ دیر سوچا اور پھر بہت فلسفیانہ انداز میں کہا۔۔ اچھا ،میں سمجھ گئی آپ کا مطلب ہے مرد کا مزاج ایسا ہے،ایک مٹھائی چکھنے کے بعد وہ پھر دوسری تیسری چوتھی کی طلب رکھ لیتا ہے۔ بزرگ نے خاتون کی بات سنی اور غصے سے دانت پیستے ہوئے جلال میں آگئے اور تپ کر بولے۔۔ نہیں ،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم بہت زیادہ موٹی اور بھدی ہوگئی ہو۔تمہارا اپنے کھانے پینے پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔۔تمہارے مسائل کوئی تعویذ کوئی دم ٹھیک نہیں کر سکتا۔۔جاؤ، اپنا منہ اور پیٹ کنٹرول میں رکھو۔ منہ اور پیٹ کنٹرول ہوگیا تو عمر بھلے کم نہ ہو، جسامت ضرور بیس سال پیچھے والی مل جائے گی۔۔سُنا ہے اس پہاڑی والے بزرگ کے پاس اب خواتین نہیں جاتیں۔۔بقول خواتین کے اس کے دم درود اور تعویذ میں کوئی اثر نہیں ہوتا۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔دلہن چوتھی بار بھی اسی گھر میں بسنا چاہ رہی ہے جہاں سے تین بار طلاق دے کر زبردستی گھر سے نکالا گیا تھا۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں